مصنفین مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں کام کھو بیٹھنے کے خدشے کا شکار

جمعہ 28 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہالی ووڈ کے مصنفین مصنوعی ذہانت )اے آئی( کے سبب اپنا کام اور کھوبیٹھنے کا خدشہ ہے جس کے سبب وہ 2 مئی سے سراپا احتجاج ہیں۔

ہالی وڈ کی اسکرین رائٹر مشیل امور کا کہنا ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے اثرات سے خوفزدہ ہیں اور وہ یہ ہرگز نہیں چاہتیں کہ کوئی مصنوعی شئے ان کی جگہ لے۔

بی بی سی کے مطابق مشیل امور اور امریکی ٹیلی ویژن اور فلم کے مصنفین مئی کے آغاز سے ہڑتال پر ہیں۔

احتجاجیوں کے اہم مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ اسٹوڈیوز اور اسٹریمنگ کمپنیاں اس بات پر اتفاق کریں کہ اے آئی سے چلنے والے جی پی ٹی چیٹ کی طرح کے تحریری ٹولز کے مستقبل میں استعمال کی حدود متعین کرنی چاہییں۔

مصنفین اور ان کی یونین رائٹرز گلڈ آف امریکا  یہ تحریری یقین دہانی چاہتے ہیں کہاے آئی  کو صرف تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کی جگہ کبھی نہیں لی جائے۔

مشیل امور نے کہا کہ’میری والدہ نے پیکر کے طور پر 35 سال ملازمت کی اور پھر ان کی جگہ روبوٹس نے لے لی‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ چلو یہ بات پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ پیکر کا کام محنت طلب ہوتا ہے لیکن ہم رائٹرز آرٹ تخلیق کرتے ہیں، ویسے بھی جعلی پکاسو کون چاہے گا؟

انہوں نے کہا کہ وہ اسکرین رائٹنگ میں اے آئی کے استعمال کی سخت خلاف ہیں۔ ’ہم مصنفین اس پوری صنعت کا دل اور روح ہیں اور کوئی بھی اس وقت تک کام نہیں کرتا جب تک ہم اپنا کام نہیں کرلیتے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے‘۔

مشیل کا کہنا تھا کہ بطور مصنف ہم ایسی کہانیاں تخلیق کر رہے ہیں جو لوگوں کے دلوں کو چھولیتی ہیں اور ان کی روح میں سرائیت کرجاتی ہیں کو چھوتی ہیں لہٰذا کسی مشین کو ایسے مقدس کام پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دینا چاہیے۔

ان کی ساتھی اسکرین رائٹر میلیسا رونڈل کہتی ہیں کہ وہ حیران رہ گئیں کہ کتنی جلدی چیٹ جی پی ٹی جاری مزدور تنازعہ کا ایک بنیادی مسئلہ بن گیا۔

انہوں نے کہا کہ ابتدا میں تو چیٹ جی پی ٹی کا کوئی خاص رول نظر نہیں آرہا تھا لیکن جیسے جیسے میں اس مصنوعی ذہانت والے ٹول کی صلاحتیوں سے واقف ہوتی گئی میری تشویش میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

میلیسا کا کہنا ہے کہ مصنفین ترقی کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہمارے ان آجروں کے خلاف کچھ بنیادی تحفظات ہیں جنہوں نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ موقع ملنے پر ہمارے استحصال سے چنداں گریز نہیں کریں گے۔

ایلیٹ کلان ایک کامیڈین اور اسکرین رائٹر ہیں۔ ان کا کہنا کہ مصنفین کو اب سب سے بڑا جو چیلنج درپیش وہ یہ ہے کہ اسٹوڈیو ایگزیکٹوز کی جانب سے فلموں یا ٹی وی کے لیے حقیقی خیالات کے لیے مصنوعی ذہانت کی مدد لینے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکرین پلے یا ٹیلی ویژن سیریز خریدنے یا موجودہ کام کو ایک نئے میڈیم میں ڈھالنے کے لیے کسی مصنف کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے وہ کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے شوز یا فلموں کے لیے آئیڈیاز نکالنے کی کوشش کیا کریں گے اور پھر اس پر دوبارہ کام کرنے اور اسے دلچسپ و پیشکش کے لائق بنانے کے لیے مصنف کو تھوڑی رقم ادا کریں گے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو مصنفین اپنے خیالات اور اپنے کام کے لیے ملنے والا بہت زیادہ معاوضہ کھو دیں گے اور ساتھ ہی شائقین کے لیے کوئی معنی خیز کام کرنے کا موقع بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔

اس کے باوجود، مسٹر کلان مصنفین کی مدد کرنے کے لیے AI کی صلاحیت کو دیکھ سکتے ہیں۔ “مثالی طور پر، AI کو ایک اختیاری ٹول رہنا چاہیے جسے معلومات کو منظم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے – یا خیالات کو بات چیت کرنے کے لیے۔”

 

الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز کے ترجمان اسکاٹ روے کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ٹولز  ہر ایک کے لیے مشکل اور اہم تخلیقی و قانونی سوالات اٹھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تخلیقی کمپنیاں ہیں اور ہم تخلیقات کے کام کی قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہترین کہانیاں اصل، بصیرت انگیز اور اکثر لوگوں کے اپنے تجربات سے آتی ہیں۔

“مثال کے طور پر، مصنفین اپنے تخلیقی عمل کے حصے کے طور پر نئی AI ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہتے ہیں، کریڈٹس کے تعین کے طریقے کو تبدیل کیے بغیر، جو کہ پیچیدہ ہے کیونکہ AI مواد کاپی رائٹ نہیں کیا جا سکتا۔ جو ہم نے کرنے کا عہد کیا ہے۔”

سلیکون ویلی میں قائم ٹیکنالوجی انویسٹمنٹ فرم ٹی ایس وی سی  کے بانی پارٹنر چنگ زیا کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت اور انسانی مصنفین کے درمیان باہمی تعاون اثرات، رفتار اور کردار کی نشوونما کو بہتر بنائے گا اور مصنفین اپنی تخلیقی مہارت، عقل، مزاح اور اصل خیالات کو اے آئی  سے تیار کردہ مواد کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔

تاہم مصنف، ہدایتکار اور اداکار جان پولونو اس تجویز سے متاثر نہیں ہیں کہ اسکرپٹ کے پہلے مسودے لکھنے کے لیے اے آئی  کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہی خمیر کو بار بار استعمال کرنے جیسا ہوگا۔

اسکرین رائٹر سارہ بیبل کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت تخلیقی تحریر میں کبھی بھی اچھی ثابت نہیں ہوگی اور یہ سب کچھ سرقہ کرنا ہوگا جو سسٹم میں پہلے سے موجود ہے اور کچھ تخلیقی لکھنے کے قابل نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp