دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا

ہفتہ 29 جولائی 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سسکی سے شروع اور ہچکی پر ختم ہونے والی زندگی کی کہانی اس صفحے کی طرح ہے جس کو نہ اپنی مرضی سے لکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی مٹایا جاسکتا ہے۔ انسان کتنے ہی منصوبے اور خواب لیے خاک میں خاک ہوجاتا ہے۔ تقدیر کا بہاؤ انسان کی تدبیر کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ نہ وقت کی رفتار روک سکتا ہے اور نہ تقدیر سے بھاگ سکتا ہے۔

ڈھیر سارے منصوبے مگر تقدیر ریت پر لکھی گئی تحریر کی طرح پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ جاتی ہے۔ بعض اوقات تو چند لمحے کی مہلت نہیں ملتی۔ اپنے پیاروں سے ملا جائے۔ ان کے گلے شکوے دور کیے جائیں۔ ماں کی آغوش میں سر رکھ کر ایک بار اس مٹھاس کو محسوس کیا جائے۔ تقدیر کے اسکرپٹ میں تحریر کردہ مناظر خواہ کتنے ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں انسان ان سے منہ نہیں پھیر سکتا۔

یہ وقت ہی ہے جو سب کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ خوشی ہو تو وقت گزرنے کا پتا نہیں چلتا اور زندگی رنج کی تصویر ہوجائے تویہی وقت ہے کہ گزارے نہیں گزرتا۔

زندگی کا رباب اچانک ایسے خاموش ہوجاتا ہے کہ بہار خزاں میں اور قہقہے آنسوؤں میں بدل جاتے ہیں۔ خواہشات قصہ ماضی بن جاتی ہیں۔ پھر نہ کوئی ڈھارس کام آتی ہے اور نہ دلاسہ۔ زندگی کی بے اعتباری میں سانس کی ڈوری کب ٹوٹ جائے، کون سا طلوع ہونے والا سورج زندگی کا آخری ہو کسی کو معلوم نہیں۔

سہنے کو تو انسان ہر دکھ سہہ جاتا ہے لیکن جوانی اور بالخصوص حادثاتی موت والدین کے لیے کیا ہوتی ہے، اس کا تصور ہی محال ہے۔ جیتے جی مرجانا سنا ہوگا؟ زندہ درگور ہوجانا جیسے محاورے سچ کا روپ دھار جاتے ہیں۔ یہ وہ دُکھ ہےجو جوان اولاد پیچھے رہ جانے والے والدین چھوڑجاتی ہے۔‎

مشکلات او رامتحانات سے پلنے والی اولاد جن کی خواہشات کی تکمیل کے لیے والدین نہ جانے اپنی کتنی خواہشوں کو مار ڈالتے ہیں۔ ان کی ذرا سی تکلیف پر خود تڑپ اٹھتے ہیں، ان کے لاڈ اٹھاتے ہیں اور ان سے بے شمار امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں کہ جوان ہو کر یہ اولاد ہی ہمارا سہارا بنے گی۔ ہمارا نام روشن کرے گی، لیکن ان کا یہ خواب تقدیر ان سے چھین لیتی ہے۔ تقدیر کے آگے تو سب بے بس ہیں۔ ہنستی کھیلتی اولاد اچانک موت کے منہ میں چلی جائے تو اس سے بڑا دکھ اور کیا ہو گا۔ جن والدین کی دنیا اجڑ جائے ان کوصبر کیسے آتا ہوگا۔

چند دن قبل ن لیگی رہنما طارق فضل چوہدری کے جواں سالہ بیٹے کی موت کی خبر سنی۔ یوں لگا جیسے اپنا کوئی چلا گیا ہو۔ ایک باپ کے دُکھ اور غم کا عالم کیا ہوگا؟ کل تک جس کے ساتھ خوشی کا ہر لمحہ گزارا آج باپ نے اپنے اسی بیٹے کی لاش کو لحد میں اتارا۔ اولاد کا جنازہ اٹھانا کتنا مشکل ہے۔ کہتے ہیں دنیا میں سب سے بڑا بوجھ ’باپ کے کاندھے پر رکھے ہوئے جوان بیٹے کے جنازے‘ کا ہوتا ہے۔ جوان بیٹے کو قبر میں اتارنے کے لیے چٹان جیسا حوصلہ چاہیے ہوتا ہوگا۔ ماں کا تو ذکر ہی کیا، الفاظ بے معنی ہوجاتے ہیں۔ زندہ لاش کا محاورہ شاید ایسی ماؤں پر ہی صادق آتا ہوگا۔

ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا دُکھ بانٹنے پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ بھی آئے تھے۔ ایسی ہی آزمائش سے وہ بھی گزرے۔ انہوں نے بھی اپنے جوان بیٹے کو ٹریفک حادثے میں کھو دیا تھا۔ ایسے کڑے وقت میں بھی ان کا حوصلہ کمال کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے مجھے بیٹے کی صورت انعام دیا اور واپس لے لیا۔ ہمیں اپنی زندگی کی بے ثباتی ایسے ہی حادثات سے سمجھ آتی ہے۔ پہلے سنا اور پڑھا کرتے تھے کہ لمحوں میں زندگی بدل جاتی ہے،لیکن جوان بیٹے کی وفات کے بعد مجھے پتا چلا کہ لمحے کس طرح زندگی کا رُخ تبدیل کرتے ہیں۔‎

زندگی کی یہ گھڑی بہت بے رحم ہوتی ہے۔ جوان اولاد کی موت کا دکھ ایسا ہے جو زندگی کے ساتھ ہی جاتا ہے۔ اس صدمے کوجھیلنے کے بعد زندہ رہ جانا بھی کسی حوصلے سے کم نہیں۔ ایسا حوصلہ روبینہ قائم خانی کا بھی دیکھا جن کا جواں سالہ بیٹا ٹریفک حادثے میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اور پھر شہلا رضا جنہوں نے 2005میں اپنے دونوں بچوں کو کھودیا۔ انہیں کبھی ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھوں تو سوچتی ہوں اس ماں کا دل اندر سے کتنا دُکھی ہوگا۔ کیسے یہ اپنا غم بھلاتی ہوں گی!!!  اولاد کی باتیں، یادیں ان کے والدین کو کیسے بھولتی ہوں گی۔

لیکن قدرت کا انسان پر بہت احسان ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ گہرے سے گہرا زخم بھی مندمل ہوجاتا ہے۔ ان کو چاہتے نہ چاہتے بھی زندگی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ہم ایسے سنگدل معاشرے کا حصہ ہیں جس میں موت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ایک تو موت کا دکھ ہوتا ہے دوسری طرف سیاسی وابستگی کی بنیاد پر سوشل میڈیا دانشوروں کی ٹرولنگ، کچھ لوگ دبے اور کچھ کھلے لفظوں میں موت کو ان سیاستدانوں کے لیے سبق اور انتقام کا نام دے کر اپنے دل کی آگ ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسی حرکتیں کر کے اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ عصبیت واقعی بعض اوقات انسان کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں اسے انسان کہنا انسانیت کی توہین کہلاتی ہے۔

ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے جواں بیٹے کی موت پر بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا۔ اخلاقی اقدار ہمارے معاشرے سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ترقی یافتہ دور میں ہم اخلاقی پستی کا شکارہو ہوچکے ہیں۔ لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کے منفی تبصرے سے دوسروں کی زندگیاں کتنی متاثر ہوتی ہیں۔ ‎شہلا رضانے اپنے بچوں کی موت سے متعلق ٹرولنگ پر کہا تھا کہ سوشل ‎میڈیا پر مجھے کہا جاتا کہ پہلے تم اپنے بچوں کو کھاگئی، اب تھر کے بچوں کا خون چوس رہی ہو۔ ذرا سوچیں تو سہی ایک ماں پر کیا گزرتی ہوگی؟ ایسے جملے سن کر۔

والدین ‎حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوں یا کسی جھونپڑی میں۔ ان کی محبت اس سے نہیں ناپی جاسکتی۔ خصوصا جس کے جوان بچے چلے جائیں، جان کا دشمن ہو تب بھی اس کے ساتھ ہمدردی ہونی چاہیے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد حضرت یوسف علیہ السلام کی محبت میں آنکھوں کی بینائی کھوچکے۔ جوان اولاد کا غم کوئی معمولی غم نہیں۔ سیاست اور سیاسی مخالفت ضرور کریں۔ مگر ریڈ لائن ضرور رکھیں۔ وہ کہتے ہیں نا

دشمن مرے تو خوشی نہ کریے
سجناں وی مرجانا

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp