حسن نام کا اک جواں کُوزہ گر اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

اتوار 30 جولائی 2023
author image

ڈاکٹر احمر سہیل بسرا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے ایم اے کرنے کے آخری دن تک گویا میں ایک بادشاہ تھا۔ تعلیمی اور غیر تعلیمی سب اخراجات گھر والے پورے کرتے تھے۔ چونکہ آمدن اور ذرائع آمدن کے مسائل میرے نہیں تھے اس لیے بادشاہوں کی طرح خرچ کرتا۔ ایم اے کے آخری روز کا سورج جب شعبہ ابلاغیات کے سامنے کھڑی آئی بی اے کی بلڈنگ کے پیچھے غروب ہوا تو میں بھی گویا محل سے سڑک پر آگیا۔ روزی روٹی کمانے کی فکر آگ اگلتے سورج کی طرح سوا نیزے پر آگئی۔

پہلی نوکری انگریزی بول چال سکھانے والے ایک ادارے بی بی سی لِنگوا ہوم میں ملی۔ اس نوکری سے پہلے پڑھانا مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق استاد بن کر انگریزی بول چال سیکھنے کے شوقین اور ٹوفل اور آئلٹس کرنے کے ضرورت مند نوجوان لڑکے لڑکیوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اُس روز انکشاف ہوا کہ میں ایک استاد ہوں اور مجھے پڑھانا آتا ہے کچھ ہی عرصے بعد ریڈیو پاکستان میں پکی نوکری ہوگئی لیکن پڑھانے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا۔

ایک بار کسی کام سے شعبہ ابلاغیات جامعہ پنجاب جانا ہوا تو اللہ بخشے ڈاکٹر مغیث الدین شیخ اور ڈاکٹر احسن اختر ناز نے وہاں پڑھانے کو کہا، دونوں شخصیات میری استاد تھیں۔ ان کا کہا حکم بھی تھا اور اپنے ہی تعلیمی ادارے میں پڑھانا اعزاز بھی، وہ ادارہ کہ جہاں مسکین حجازی مہدی حسن اور مجاہد منصوری جیسے جیّد اساتذہ سے اکتسابِ علم کرتا رہا تھا۔ اس طرح میں ابلاغیات کا ایک باقاعدہ استاد بن گیا۔ یہ یوں تھا کہ جیسے میں حسن نام کا ایک جوان کوزہ گر تھا اور انہیں نابغوں کی تاروں میں پرویا گیا تھا۔

یہ وہ دور تھا کہ جب آتش جوان تھا اور سامنے بیٹھے طالب علم بھی کچھ سال کے فرق سے کم و بیش ہم عمر ہی تھے۔ تب سے اب تک لاہور اسلام آباد اور گلگت کی اہم جامعات میں پڑھا چکا۔ شعبہ ابلاغیات و سینٹر فار ساؤتھ ایشین سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی، یو ایم ٹی لاہور، سپیرئر یونیورسٹی لاہور، نمل لاہور، لیڈز یونیورسٹی لاہور، نسٹ اسلام آباد اور کے آئی یو گلگت میں ہزاروں طلبا و طالبات کو پڑھایا۔

میں نے ہمیشہ طالب علم اور استاد کے رشتے کو نام نہاد روحانی باپ اور روحانی اولاد کے سہارے با عزت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ میں ذاتی طور پر عزت اور احترام دینے یا لینے کے لیے کسی منہ بولے روحانی رشتے کی بیساکھی کا سہارا لیتا ہوں نہ ہی اس کا اشتہار لگاتا ہوں۔ انسان اور انسانیت کا احترام بغیر کسی رشتے کے بھی کیا جا سکتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔

طالب علموں نے مجھے ہمیشہ عزت دی اور میں نے ہمیشہ ان کا احترام کیا۔ استاد ہونے کی حیثیت سے تعریف بھی کی، ڈانٹ ڈپٹ بھی کی، سخت سست بھی کہا۔ اس سب کے باوجود کبھی بھی کسی طالب علم کی بے عزتی کی، نہ کسی کا استحصال کیا، نمبروں کے لئے کسی طالبہ کو بلیک میل کیا، نہ ہی کسی طالب علم کو پریشان، جس کے جتنے نمبر بنے اسے دیئے اور اس سارے عرصے میں اپنے کسی بھی مرد کولیگ بارے کہ جن میں میرے اساتذہ بھی تھے اور شاگرد بھی ایسی کوئی بات سنی نہ دیکھی۔ جس سے پتا چلتا ہو کہ وہ ایسے کسی مکروہ کام میں ملوث ہوں گے۔ جیسا مبینہ طور پر جامعہ بہاولپور میں ہوا جس کی تحقیقات ابھی حتمی نہیں ہوئیں۔

میں نہیں کہتا کہ ہم سب دودھ کے دُھلے ہیں، نیک ہیں، فرشتے ہیں۔ ہم میں بھی بشری خامیاں ہوں گی۔ لیکن ایسی نہیں کہ طلبا و طالبات کو بلیک میل کیا جائے اور کہیں کوئی ہزاروں لاکھوں میں چند کالی بھیڑیں بھی ہو سکتا ہے کہ ہوں یقیناً ہوں گی کوئی ایک دو یا تین کالی بھیڑیں کہاں نہیں ہوتیں۔ کس معاشرے یا ملک یا شعبے میں نہیں ہوتیں لیکن کسی ایک مثال کو لے کر جس کے بارے میں ابھی پتا بھی نہیں کہ صحیح ہے یا غلط اُسے اُس معاشرے یا ملک یا شعبے پر اِنڈَکٹِو اپروچ کی طرح لاگو کر دینا سراسر زیادتی ہے۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سچ کے سامنے آنے سے پہلے فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ صحافت بازار کا وہ چائے کا کھوکھا بن چکی ہے جہاں ہر شخص آ کر چائے پیتا ہے، پان چباتا ہے اور پیک تھوک کر چلا جاتا ہے۔ سبھی نہ بھی ہوں لیکن بہت سے وی لاگر خود ہی صحافی ہیں، خود ہی تحقیقی ادارے ہیں اور خود ہی جج بھی ہیں۔ اور ویسے ہی پیچھے ان کے سننے دیکھنے والے تصویر کا ایک رخ دیکھ کر حتمی رائے دینے والے اور اس حتمی رائے کو دین اور ایمان کا درجہ دے دینے والے۔

بہاولپور یونیورسٹی کے اس واقعے جیسے کسی بھی واقعے کے انتظار میں، ایک مخصوص گروہ گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ جیسے ہی ایسا کچھ ہو فوراً مرد و زن کو الگ الگ ڈربوں میں بند کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا جائے۔ آپ زمان و مکاں کے اس عہد میں خواتین و حضرات کو کب تک اور کہاں تک الگ الگ رکھ سکتے ہیں۔ مخلوط تعلیم ختم کر دیں لڑکیاں الگ ڈاکٹر بن جائیں مرد الگ ڈاکٹر بن جائیں اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہسپتال بھی الگ الگ کر دیں گے؟ کیا انجینئرنگ کے میدان ہائے عمل بھی الگ الگ کر دیں گے؟ کیا دفاتر میں ایڈمنسٹریشن بھی الگ الگ کردیں گے؟ کیا بسیں بس اڈے ہوائی اڈے ریلوے سٹیشن ٹرینیں اور چِنگ چیاں بھی الگ الگ کردیں گے۔ کیا لڑکیوں کے تعلیم اداروں سے سارے مرد ملازم باہر نکال پھینکیں گے؟ ڈرائیوروں کا کیا کریں گے؟ جو بسوں میں بھی ہیں اور گھروں میں بھی۔ بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والوں کا کیا کریں گے؟ جانوروں کو بھی نہ بخشنے والوں کا کیا کریں گے؟

جائیں ذرا اُن مالشیوں کی کہانیاں بھی سنیں جنہیں رات کی تاریکی میں گاڑیاں اُٹھانے آتی ہیں۔ کہاں کہاں مرد و زن کے بیچ دِواریں کھڑی کریں گے؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ سڑک پر ایک حادثہ ہو جانے کے بعد سڑک بند نہیں ہو جاتی، کسی ہوائی جہاز کے برسوں میں ایک بار حادثے کا شکار ہو جانے کے بعد ہوائی سفر ختم نہیں ہو جاتا، ڈاکٹر سے کسی ایک مریض کا غیر دانستہ یا غلط علاج ہوجانے کے بعد لوگ علاج کرانا بند نہیں کر دیتے۔ مسائل معاشرے کا حصہ ہیں اور ان مسائل کے حل کے لئے جُہدِ مسلسل ہی مسائل کا حل ہے۔

جنسی اور مسکّن ادویہ و نشہ آور اشیاء و مصنوعات کا استعمال و مسائل یا جرائم مرد و زن کی تخصیص سے باہر ہو چکے۔ یہ انسانی مسائل ہیں یہ معاشرتی المیے ہیں، یہ اجتماعی مسائل ہیں کسی ایک جنس سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بُرے کے سامنے آجانے پر پوری جنس پر حد نہ جاری کردیں۔ چند مردوں کے خراب ہوجانے سے سارے مرد خراب نہیں ٹھہرائے جا سکتے بالکل اسی طرح جیسے کسی ایک عورت کے کسی جرم کی بنا پر ساری عورتیں مجرم نہیں بن جاتیں۔

موجودہ گھناؤنا و روح فرسا واقعہ جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں رونما ہوا ہمارے تعلیمی نظام سے منسلک ہے۔ جس پر ہر کس و نا کس کی طرف سے لے دے ہورہی ہے اور مذمت کی جارہی ہے۔ کرنی بھی چاہئیے۔ اور مجرموں اور ذمہ داروں کو قرارِ واقعی سزا بھی ملنی چاہیئے۔ ہمارے تعلیمی نظام اور اس سے منسلک سارے بند وبست میں اساتذہ و دیگر عملے کی تعیناتی سے لے کر امتحانی نظام تک میں بہت سی خامیاں ہیں۔ مثال کے طور پر میں سمسٹر سسٹم کے خلاف ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی اس طریقِ امتحان کے لئے تیار ہی نہیں ہوا تھا کہ اسے نافذ کر دیا گیا۔ اس نظام کو اپنانے سے پہلے اساتذہ کی ایک طویل مدتی ٹریننگ کا اہتمام اس طرح سے نہیں کیا گیا جس طرح سے کیا جانا چاہیے تھا۔

اس نظام کو بہتر بنانے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے اس طریقِ تدریس میں انٹرنیٹ اور اس سے وابستہ گیجٹس کی فراہمی اور اس کے استعمال کا آنا بے حد ضروری ہے۔ ایل ایم ایس نامی ڈیجیٹل انصرام کو چلانے کے لئے ہمارے پاس مستعد متحرک اور مشّاق افرادی قوت ہی نہیں ہے انٹرنیٹ کے مسائل اپنی جگہ ہیں ضرورت اس امر کی تھی کہ پہلے سمسٹر سسٹم کے لئے ہر طرح کے لوازمات پورے کیے جاتے پھر اس نظام کو اپنایا جاتا۔

ان سب عوامل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گذارش یہ ہے کہ خدا کے لئے اس سارے نظام کی بہتری کے لئے اس نظام کی خامیوں کو اجاگر کریں اور ان کے حل کے لیے قابلِ عمل تجاویز دیں۔ لیکن اس پورے نظام کے خلاف اس طرح سے مہم جوئی نہ کریں۔ خواتین پہلے ہی اس معاشرے میں جگہ جگہ پس رہی ہیں ان پر پہلے ہی کئی نوع کی نام نہاد پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ کہیں معاشرے کی اور کہیں تہذیب کی کہیں ثقافت کے نام پر اور کہیں مذہب کے نام پر اُن کے لیے مزید پابندیوں کا اہتمام نہ کریں۔

اُن سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا بااعتماد اور خود کفیل ہونے کا یہ واحد پلیٹ فارم بھی نہ چھینیں۔ والدین کا وہ اعتماد جو انہیں تعلیمی اداروں اور اپنی اولاد پر ہے اُسے اِس حد تک مجروح اور داغدار نہ کریں کہ ان کی بڑی تعداد اپنی بیٹیوں کو درس گاہوں میں بھیجنے سے گھبرانا شروع کردے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ابلاغیات میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔ اس وقت ریڈیو پاکستان سکردو میں بطور اسٹیشن ڈائریکٹر تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی لاہور، نسٹ اسلام آباد اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت جیسے اداروں میں پڑھا چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp