چیئرمین سینیٹ نے انسداد پرتشدد انتہا پسندی کا بل ڈراپ کردیا

اتوار 30 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انسداد پرتشدد انتہا پسندی کا بل سینیٹ میں پیش کیا گیا، چیئرمین سینیٹ نے ارکان سینیٹ سے سوال کرتے ہوئے کارروائی کا آغاز کیا کہ بل کو کمیٹی میں بھیجا جائے یا نہیں جس پر بحث کے دوران بیشتر سینیٹ ارکان نے بل کی مخالفت کر دی تاہم چیئرمین سینیٹ نے کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے بل کو سینیٹ سے ڈراپ کردیا اور کہاکہ حکومت انسداد پرتشدد بل کو ڈراپ کرے یا نہ کرے میں اس بل کو ڈراپ کرتا ہوں۔

 وزیر مملکت شہادت اعوان نے انسداد پرتشدد انتہا پسندی کا بل سینیٹ میں پیش کیا، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان نے بل کی مخالفت میں احتجاج شروع کر دیا تاہم بعد ازاں بیشتر ارکان اس بل کی مخالفت میں سامنے آگئے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ اس طرح کی قانون سازی کرنے سے پہلے اتحادیوں کو تو اعتماد میں لینا چاہیے۔ یہ بل کسی کے بھی خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ یہ بل تاریخ کا حوالہ بن جائے گا، ایسے بل کو پاس نہ کیا جائے۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی جمیعت علماء اسلام (ف) کی جانب سے ایوان میں پُرتشدد انتہا پسندی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے بل پیش کیے جاتے ہیں بعد میں وہی بل گلے پڑ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بہت سارے معاملات اس بل کی زد میں آجائیں گے، اگر آپ نے زور سے نعرہ بھی لگایا تو کہا جائے گا کہ تشدد پر اکسایا جارہا ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس بل کی مخالفت کرتا ہوں، یہ بل پی ٹی آئی کے خلاف نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف ہے، یہ بل جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔

اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے اتحاد کے تمام بڑے فیصلے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کر رہی ہے، یہ بل جمہوریت کے خلاف ہے۔ یہ بل جمہوریت پر کھلا حملہ ہے، ہم اس بل کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔

انسداد پرتشدد انتہا پسندی کا بل ہے کیا؟

انسداد پرتشدد انتہا پسندی کے بل کے مطابق پُر تشدد انتہا پسندی پر 3 سے 10 سال تک قید کی سزا اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا، اور تنظیم تحلیل کر دی جائے گی، جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے بھی ضبط کر لیے جائیں گے۔

پرتشدد تنظیم کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے، ساتھ ہی تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہیں ہوگی، پرتشدد شخص کو کسی بھی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

مجوزہ بل کے مطابق پرتشدد فرد یا تنظیم کی میڈیا رسائی یا اشاعت پر پابندی لگائے جائے گی، حکومت اس کے لیڈر، عہدیداروں اور ممبران کی سرگرمیاں بھی مانیٹر کرے گی۔

پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی و سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال ہے، اس تنظیم کے لیڈر، عہدیدار، ممبران کا اسلحہ لائسنس بھی منسوخ کر دیا جائے گا، تنظیم کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے۔

مجوزہ بل کے مطابق وہ جماعت یا فرد پرتشدد انتہا پسند کہلائے گی جو فرقہ واریت کو فروغ دے گی، کسی انتہا پسند فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرے گی، تشدد، دشمنی اور طاقت کے استعمال کے لیے اکسائے گی۔

مجوزہ بل کے مطابق حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی شخص یا تنظیم کو پرتشدد انتہا پسندی پر لسٹ 1 اور 2  میں شامل کر سکتی ہے، لسٹ 1 میں وہ تنظیم ہو گی جو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہو جس کا سربراہ پرتشدد ہو۔

تفصیلات کے مطابق لسٹ 1 میں نام بدل کر دوبارہ منظر عام پر آنے والی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی، لسٹ 2 میں ایسے افراد شامل ہوں گے جو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہوں گے اور پرتشدد ادارے، لیڈر یا پرتشدد ادارے کی مالی معاونت کرنیوالے بھی شامل ہوں گے۔

تجویز کردہ بل کے مطابق متاثرہ شخص 90 دن سے 12 ماہ تک حراست میں رکھا جائے گا جبکہ اسکو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ اسی طرح حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp