دو روز قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے خانیوال میں ماڈل ایگریکلچرفارم کا افتتاح کیا اور حاضرین مجلس سے خطاب کرتے ہوئے اپنا ویژن بیان کیا۔ میں اس تقریب میں موجود تو نہیں تھا لیکن سوشل میڈیا پر ان کے خطاب کے خوب چرچے سنے کہ جنرل صاحب نے بڑا متاثر کن خطاب کیا کہ کیسے وہ پاکستان کو ایک جدید زرعی ملک بنانے کا خواب رکھتے ہیں۔ ان کے اس گرین ویژن یا جدید زرعی انقلاب سے مجھے اپنے آبائی علاقے کے ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب کا واقعہ یاد آگیا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے آبائی علاقے کے بالکل ساتھ والے گاؤں کے ایک رہائشی پاکستان آرمی میں جنرل کے عہدے تک پہنچے ابھی چند سال پہلے ہی فوج سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ظاہری بات ہے جنرل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والے کو اچھی خاصی مراعات ملتی ہیں، زرعی زمین بھی ملتی ہے دیگر مراعات کے علاوہ۔ جنرل صاحب کو شوق چڑھا کہ وہ اپنے علاقے میں ایک جدید زرعی ماڈل فارم بنائیں گے۔ جنرل کے عہدے تک پہنچتے پہنچتے انسان طبعاً اور مزاجاً ایک مکمل فوج بن چکا ہوتا ہے جو ہر کام حکم کی صورت میں کرواتا ہے۔
چونکہ یہ جنرل صاحب کی خواہش تھی ایک جدید زرعی فارم بنانا ہے، پیسہ تو ان کے پاس خوب تھا، تو ان کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے پر آناًفاناً کام شروع ہوگیا۔ زمین ہموار کی گئی، 10-15 ایکڑ کے گرد دیوار تعمیر کرائی گئی، سوئمنگ پول، آب پاشی کے پختہ نالے بنائے گئے۔ الغرض ہر لحاظ سے جنرل صاحب نے اس کو ایک جدید زرعی فارم کا ایک عمدہ نمونہ بنانے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ اب اس فارم کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے بعد اگلا مرحلہ یہ آیا کہ اس میں اگایا کیا جائے اور کیٹل (مویشی) فارم میں کون کون سے جانور رکھے جائیں۔
جنرل صاحب کے فارم کی علاقے میں دھوم مچ گئی کہ وہ بڑا عالی شان فارم بنا رہے ہیں۔ یہ تمام کام انہوں نے کسی سویلین یا علاقے کے مزدوروں کے بجائے اپنے ماتحت ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کی زیر نگرانی کروایا۔ کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک جنرل کی ویسی ہی شان ہوتی ہے اور ان کے ریٹائرڈ ماتحت اہلکاران اسی تندہی کے ساتھ جنرل کی حکم آوری بجا لاتے ہیں تو بڑے ڈسپلن کے ساتھ یہ تمام کام سرانجام پایا۔
اب اگلے مرحلے میں جنرل صاحب نے اپنے سٹینڈرڈ کے مطابق عام یا دیسی مویشیوں کی بجائے اعلیٰ نسل کے مویشی فارم کے لیے خریدے۔ کوئی آسٹریلین نسل کی گائیں کہیں سے آرہی ہیں تو سویڈیش نسل کی بھیڑیں کہیں سے منگوائی گئیں۔ الغرض اعلیٰ قسم کے امپورٹڈ نسل کے مویشی جنرل صاحب نے اپنے فارم ہاؤس کے لیے منگوائے۔ اسی طرح پھلدار پودے بھی انہوں نے اعلیٰ قسم کے منگوائے۔ جب فارم بھی بن گیا، اس میں مویشی اور انواع و اقسام کے درخت اور پودے بھی لگ گئے تو اگلا مرحلہ تھا کہ ان سب کی اب دیکھ بھال کون کرے گا؟ اس کام کے لیے بھی جنرل صاحب نے بجائے کسی لوکل مزدور یا کسان کے اپنے ریٹائرڈ ماتحت فوجی حضرات کو توجیح دی اور فارم پر کام کرنے والے تمام ریٹائرڈ فوجی حضرات ملازمت پر رکھ لیے۔
وقت گزرتا رہا، وہ امپورٹڈ نسل کے جانور شروع میں خوب دودھ کی پیداوار دیتے رہے اور ایسے لگ رہا تھا کہ ہر کام بخوبی ہو رہا ہے۔ اس فارم کو شروع ہوئے ابھی چند سال ہی گزرے ہیں۔ ابھی پتہ چلا ہے کہ وہ تمام امپورٹڈ مویشی بھی مطلوبہ پیداوار نہیں دے سکے کیونکہ ان کی شاید بہتر طریقے سے دیکھ بھال نہیں ہوسکی اور نہ ہی وہ انواع و اقسام کے پودے درخت بن کر پھل دے سکے۔ جنرل صاحب مایوس ہوگئے اور اب شنید ہے کہ جس تندہی سے انہوں نے وہ فارم ہاس ہاؤس بنایا تھا بالکل اسی لگن کے ساتھ اسی فارم ہاؤس کو ختم کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ بالکل حقیقت پر مبنی ہے اور اس میں ایک سبق ہے کہ جس کا جو کام ہے وہی اس کو بہتر طور پر کرسکتا ہے۔ اگر مجھ سے کوئی یہ امید لگا لے کہ میں کھیتی باڑی کروں تو میرے خیال میں یہ میرے ساتھ بھی زیادتی ہو گی اور ان کے ساتھ بھی جن کا میں حق ماروں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آرمی چیف کا یہ گرین ویژن ایک گیم چینجر بن سکتا ہے اور یہ پاکستان کو آنے والے سالوں میں زرمبادلہ کی صورت میں ایک خطیر رقم فراہم کرسکتا ہے لیکن اس میں میرے خیال میں ایک بنیادی غلطی ہے اور وہ غلطی یہ ہے کہ اس پورے منصوبے میں جو اہم سٹیک ہولڈر ہیں ان کو پوری طرح سے شامل نہ کیا جانا۔
فارم ہاؤس والے جنرل صاحب نے بھی یہی غلطی کی تھی کہ اس کام کا تجربہ رکھنے والوں کی بجائے ان کو ذمہ داری سونپی گئی جنہوں نے یہ کام پہلے کبھی کیا ہی نہیں تھا۔ اگر پاکستان میں سبز انقلاب لانا ہے تو کسانوں کو مضبوط کریں۔ ان کو جدید خطوط پر کاشتکاری کرنے کے لیے سویلین حکومت کے ساتھ مل کر سپورٹ کریں۔ کسانوں کو آسان اقساط پر قرضے فراہم کریں۔ زرعی اجناس اور زرعی مصنوعات کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنائیں۔ بڑے بڑے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کیساتھ ساتھ چھوٹے کسانوں کو بھی سہولیات فراہم کریں۔ ورنہ یہ آپ کا گرین ویژن بھی اس ریٹائڑڈ جنرل کی طرح بے نتیجہ ہی رہے گا۔