کہانی وکی اور جمی کی

منگل 1 اگست 2023
author image

سعدیہ کیانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب آپ کو معلوم ہو کہ ایک شخص نے ایک منفرد ایجاد کی مگر اپنے انمول کارنامے کے بدلے کروڑوں ڈالر سالانہ کمانے کی بجائے سالوں سال کی محنت کو،اپنی منفرد ایجاد کو دنیا بھر کیلئے مفت سروس کے واسطے وقف کردیا تو ایسے شخص کے بارے میں آپ کیا سوچیں گے؟

یقینا فوری طور پر یہی خیال آئے گا کہ ایسا تو کوئی بیوقوف شخص ہی کرسکتا ہے یا دوسرا خیال یہی ہوگا کہ کوئی بہت ہی عاجز و انکسار آدمی ہے جو اپنی زندگی کو دوسروں کے لئے وقف کر بیٹھا ہے ۔۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ دونوں خیال درست نہیں۔ دنیا میں جہاں کثرت کاروباری زہن رکھنے والوں کی ہے۔ وہی ایک حصہ ایسے خوش خیالوں کا بھی ہے جو اپنی محنت سے انسیانیت کو نفع دینا چاہتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کل دنیا کے لوگ بھی انہی کی طرز پر انسانیت کی خدمت کریں گے۔ یہ چند لوگ ایسا کرکے سکون قکب و اطمینان اور نیکیوں کا سودا کرنا پسند کرتے ہیں۔

ڈیجٹل دور کی شروعات تو کہیں 90 کی دہائی سے ہورہی تھیں مگر  2000 کو ہی اگر ٹیکنالوجی کی دنیا میں تبدیلی کی صدی کہا جائے تو یہ درست ہوگا۔ اس ڈیجیٹل دور میں جنم لینے والے بچے روایتی طریقہ تحقیق سے تقریباً ناواقف ہیں۔ یہ گھنٹوں گھنٹوں لائیبریریوں میں بیٹھ کر اپنے لئے معلومات اکٹھی کرنے کی بجائے اپنے ہی بستر پر لیٹے لیٹے دنیا بھر سے ون کلک پر انفارمیشن حاصل کرلیتے ہیں۔ اس جنریشن کو تعلیم و تربیت کے حصول کی خاطر اساتذہ کی ایسی اشد ضرورت محسوس نہیں ہوتی جیسے ان کے والدین کو رہی۔ ڈیجیٹل دور کی جنریشن معلومات کے حصول کے لئے صبر کا مادہ نہیں رکھتی اور جونہی کسی سوال۔کا جواب درکار ہو اسے فوری جواب کے لئے اپنے کمپیوٹر ٹیبلیٹ یا اب سمارٹ فون پر سرچ کرکے اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں صرف چند سیکنڈ یا منٹ کا عرصہ لگتا ہے البتہ یہ نسل یہ بھی نہیں جاننا چاہتی کہ اس کو یہ سہولت دینے والوں کی اکثریت اس صدی کی نہیں بلکہ گزشتہ صدی میں پیدا ہونے والے لوگ ہیں جنہوں نے دن رات محنت کرکے نئی جنریشن کو یہ سہولیات فراہم کیں۔ انہیں زبردست لوگوں میں سےایک کا نام جمی ویلز (jimmy wales) کا ہے اور یہ وہ شخص ہے جس نے وکیپیڈیا جیسی دنیا کی ساتویں بڑی ویب سائیٹ بنائی۔ کروڑوں ڈالر سالانہ کمائے جاسکتے تھے مگر جمی ویلز نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں علم کی ترسیل سے دلچسپی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر سے لوگ اس ویب سائیٹ پر مفت کام کریں اور مفت معلومات پھیلائیں۔ جنوری 2001 میں اس کا آغاز ہوا اور محض چند برسوں بعد یہ 300 سے زائد زبانوں میں کام کرنے لگی۔

دنیا کے ہر خطے سے طالبعلم اور سکالرز کے علاوہ بھی بہت سے لوگ معلومات کے حصول کے لئے ادھرکا رخ کرتے ہیں جبکہ بعض تو جمی ویلز جیسے دوسروں کو معلومات فراہم کرنے کے جذبے کے ساتھ وکیپیڈیا پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں اور جومفید معلومات انہیں میسر آئیں وہ وکیپیڈیا پر ڈال دیتے ییں۔

یہ معلومات کسی خاص شخص سے متعلق بھی ہوسکتی ہیں یعنی کسی معروف اداکار، سائنسدان، کاروباری شخصیت سیاستدان یا کسی واقعہ سے متعلق بھی ہوسکتی ہیں حتی کہ کوئی بھی شخص اس میں اپنی مرضی سے کچھ شرائط کے ساتھ  رد و بدل کرسکتا یے۔ وقت کےساتھ ساتھ یہ اتنی معروف ہوئی کہ اب کسی کو بھی جب کچھ معلوم کرنا تو سب سے پہلے وکیپیڈیا کا رخ کرتا ہے۔ دلچسپپ بات تو یہ ہے کہ پوری دنیا سے لاکھوں افراد، ہر لمحہ اس ویب سائیٹ سے جڑے رہتے ہیں اور ناصرف یہاں سے معلومات حاصل کرتےبیں بلکہ جہاں ان کو لگے یہ ترامیم بھی کرتے رہتے ہیں اور یہی پہلو ویکیپیڈیا کو ممتاز بنا کر اس کی ترقی کا سبب بن رہا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس نے اس کے خالق کو اس کی تخلیق پر ابھارہ۔

بقول جمی ویلز بچپن سے ہی ان کو پڑھنے کا شوق تھا اور ان کی والدہ ان کے اس شوق و پورا کرنے کے لئے انہیں ڈھیروں ڈھیر کتابیں لاکردیتی تھیں مگر جمی کا کہنا تھا کہ ہمیشہ ان کو کتاب میں موجود معلومات میں کمی محسوس ہوتی ، بعض سوالات کے جوابات نہ ہوتے اور بعض اوقات کتاب میں موجود معلومات اپ ٹو ڈیٹ نہ ہونے کے سبب انہیں اس کا نیو ایڈیشن لینا پڑتا یا نئے ایڈیشن کی چھپائی کا انتظار کرنا پڑتا۔ جمی کو اس انتظار اور ادھوری معلومات کا حل تلاش کرنا تھا جس میں معلومات مکمل اور وقتا فوقتا بنا وقت ضائع کئے فوری ترمیم کی جاسکے۔ بس اسی خیال کے تحت انہوں نے وکی پیڈیا بنانے کا سوچا۔ وکی سے مراد جلدی ہے یعنی ایسا پلیٹ فارم جہاں جلدی جلدی ساری۔انفارمیشن مل جائیں۔ اس مقصد کے لئے جمی کو بہت سارے ایڈیٹرز درکار تھے جو دنیا بھر سے اپنی نالج کے مطابق اس پر معلومات جمع۔کرتے مگر ایسا تبھی ممکن تھا جب وکی پیڈیا کو مفت استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی۔ جمی کا مقصد معلومات کا ایک۔جگہ پر جمع کرنا تھا اسلئے انہوں نے اس سائیٹ کو سو فیصد مفت اور آسان بنا دیا۔یہ سب یقینا آسان نہ تھا مگر کہتے ہیں نا ہمت مرداں مدد خدا!

جمی نے پہلے خود جزبہ قربانی سے کام کیا اور پھر پوری دنیا سے ایڈیٹرز نے اس کا ساتھ دیا اور ریسرچ و معلومات کی دنیا میں ایک نئی ٹکنالوجی متعارف ہوگئی۔ویکیپیڈیا میں اسوقت کم از کم 192,974 مضامین کا اندراج ہو چکا ہے اور اس تعداد میں اظافہ ہوتا جا رہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف انسان نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بوٹس بھی ویکیپیڈیا کو چلانے میں معاونت کرکے معیاری ڈیٹا و معلومات یہاں محفوظ کرتے ہیں۔

ویکیپیڈیا میں چونکہ ہر کوئی کسی بھی مضمون میں ترمیم کر سکتا ہے۔ بس جہاں لکھا ہو ‘صفحے کو ترمیم کریں’ اس لنک پر کلک کریں اور صفحے میں ترمیم کریں۔ اس مقصد کے لۓ آپ کو لاگ ان ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ جہاں یہ بات اسے منفرد اور نفع بخش بناتی ہے وہیں اس کے معیار پر سوال بھی اٹھاتی ہے کہ ہوسکتا ہے ترمیم کرنے والےکی معلومات کم ہوں یا وہ کسی طرح کی بدنیتی پر مبنی مواد ترمیم کی شکل میں مضمون میں داخل کرتے اور کسی ادارے یا شخصیت کی کردار سازی ہو۔ چند سال پہلے وکیپیڈیا کے متعدد موضوعات رد و بدل کے کے غلط معلومات پھیلانے کا الزام بھی لگایا گیا اور  ویکیپیڈیا کو سخت تنقید کا سامنابھی رہا لیکن پھر 2017ء میں فیس بک نے اعلان کیا کہ وہ ویکیپیڈیا کے مضامین کے قارئین کے سامنے ایسے لنک پیش کر یگا کہ جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی نشان دہی ہوجائے اور اسی طرح یو ٹیوب نے بھی ساک بعد تعاون کا اعلان کردیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وکیپیڈیا پر زیادہ تر معلومات درست ہوتی ہیں لیکن کاونٹر چیک کرنا ہماری زمہ داری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp