پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کے آخری دن چل رہے ہیں اور انہی دنوں میں تقریباً ہر دوسرے دن پارلیمنٹ سے کسی نئے بل کے پاس ہونے کی خبر مل رہی ہے مگر کیا بل چند گھنٹوں میں ہی پاس ہوجاتا ہے؟ واضح رہے کہ یہاں اس بارے میں جاننا نہایت اہم ہے کہ آخر کسی بھی بل کو پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ کوئی بھی بل سینیٹ یا قومی اسمبلی دونوں کی جانب سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے بل پیش کیے جاتے ہیں اور ان کو پاس ہونے کے لیے دونوں ایوانوں کی حمایت لازمی ہوتی ہے اور پھر صدر کی منظوری کے لیے اس بل کو بھیجا جاتا ہے اور ان تمام مراحل سے منظور ہونے کے بعد بل پاس ہوجاتا ہے۔
شاہ خاور نے بتایا کہ آئے روز بل کا پاس ہونا حیران کن نہیں کیونکہ اگر کسی بل کو سب کی حمایت حاصل ہو تو اسے منظور ہونے کے لیے صرف چند گھنٹے ہی درکار ہوتے ہیں۔ اگر صدر کسی بل میں کوئی اصلاحات کرکے جوائنٹ ہاؤس میں بھیج دیتے ہیں اور وہ بل دوبارہ بنا کسی ترمیم کے صدر کے پاس جاتا ہے تو اسے پاس کرنے کے لیے ان کے پاس 15 دن ہوتے ہیں۔ اگر صدر کی جانب سے 15 دنوں تک کوئی بھی جواب نہیں آتا تو وہ بل منظور تصور کرلیا جاتا ہے۔
ہائیکورٹ کی وکیل اور سینٹرل ورکنگ کمیٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) آمنہ شیخ کہتی ہیں کہ دھڑا دھڑ بل پاس ہونا پاکستان میں اس لیے عجیب لگ رہا ہے کیونکہ یہاں ملک کے مفاد میں بھی اگر کوئی بل پاس ہو تو اس پر بھی اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں اور بعض اوقات وہ اعتراضات ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی وزن بھی نہیں ہوتا بس پارٹیاں ایک دوسرے کو اپنی پاور دکھانے کے لیے وہ سب کرتی ہیں جبکہ دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا۔
آمنہ شیخ نے کہا کہ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی بل آتا ہے تو وہ فوری طور پر پاس ہوتا ہے اور اسے سیاسی مفادات اور پاور دکھانے کے لیے مسترد نہیں کیا جاتا ہے اور اگر آج کل یہ کہا جا رہا ہے کہ ہر دوسرے روز پارلیمنٹ سے بل پاس ہورہا ہے تو اس میں عجیب نہیں لگنا چاہیے بلکہ یہ اچھی بات ہے کہ ہمارے ہاں معاملات کو بنا لٹکائے بل پاس ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کی بات کی جائے تو وہ بل واحد ہے جس پر اپوزیشن سے اسپیکر نے پوچھا بھی کہ اگر کوئی اعتراضات ہوں تو وہ کمیٹی کو بھجوا دیں مگر ان کی جانب سے یہی کہا گیا کہ بل پاس کردیں کیونکہ یہ بل پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری تھا۔
ایک سوال کے جواب میں آمنہ نے بتایا کہ پاکستان میں بل کو لٹکاتے رہنا معمول بن چکا ہے جبکہ ایک بل اگر دونوں ایوانوں سے پاس نہیں ہوتا تو جوائنٹ سیشن ہوتے ہیں جن پر کروڑوں روپے لگائے جاتے ہیں اور جتنے بھی پارلیمنٹرینز ہیں انہیں ہوائی ٹکٹس کے علاوہ ان کے طعام و قیام وغیرہ کے لیے بھی اخراجات اٹھائے جاتے ہیں اس لیے ایک جوائنٹ سیشن پاکستان کی معیشت پر کافی اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا بلز کا فوری پاس ہونا زیادہ بہتر ہے نہ کہ اس پر 10 جوائنٹ سیشنز ہوں۔
آئینی طریقہ کار
یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 50 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ دونوں ایوانوں پر مشتمل ہوگی جنہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ کہا جاتا ہے۔ منی بلز کو چھوڑ کر قومی اسمبلی کو رقم کے معاملات پر خصوصی طور پر قانون سازی کرکے سینیٹ پر برتری حاصل ہے تاہم دونوں ایوان مل کر پارلیمنٹ کے بنیادی کام یعنی قانون سازی کو انجام دیتے ہیں۔
قانون سازی کا طریقہ کار
وفاقی قانون سازی کی فہرست سے متعلق بل کسی بھی ایوان میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایوان نے بل کو اکثریتی ووٹ سے منظور کر لیا تو اسے دوسرے ایوان میں منتقل کر دیا جائے گا۔ اگر دوسرا ایوان اسے بغیر ترمیم کے پاس کرتا ہے تو اسے صدر کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
اگر بل دوسرے ایوان میں منتقل کیا گیا اور اسے 90 دنوں کے اندر پاس نہیں کیا جاتا یا مسترد کر دیا جاتا ہے تو اس ایوان کی درخواست پر صدر کی طرف سے بلائے جانے والے مشترکہ اجلاس میں اس پر غور کیا جائے گا جس میں بل کا آغاز ہوا تھا۔ اگر بل دونوں ایوانوں کے ارکان کی اکثریت کے ووٹوں سے، ترمیم کے ساتھ یا اس کے بغیر، مشترکہ اجلاس میں منظور ہوتا ہے تو اسے منظوری کے لیے صدر کے سامنے پیش کیا جائے گا اور دونوں ایوانوں کی جانب سے اگر کوئی ایک ایوان بل کو مسترد کرتا ہے تو اسے جوائنٹ سیسشن میں پیش کیا جاتا ہے۔
صدر کا کردار
اگر بل کو منظوری کے لیے صدر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ 10 دنوں سے کم عرصے میں بل کی منظوری دے دیں گے۔ اگر یہ منی بل نہیں ہے تو صدر اس بل کو ایک پیغام کے ساتھ مجلس شوریٰ کو واپس بھیج سکتے ہیں جس میں درخواست کی جاتی ہے کہ بل پر دوبارہ غور کیا جائے اور پیغام میں بیان کردہ ترمیم پر غور کیا جائے۔
مجلس شوریٰ اس بل پر مشترکہ اجلاس میں دوبارہ غور کرے گی۔ اگر بل ترمیم کے ساتھ یا اس کے بغیر، موجود اور ووٹنگ کرنے والے ارکان کی اکثریت کے ووٹ سے دوبارہ منظور کیا جاتا ہے تو اسے صدر کے سامنے پیش کیا جائے گا اور صدر10 دن کے اندر اس کی منظوری دیں گے جس میں ناکامی کی صورت میں بل کو منظور سمجھا جائے گا۔
آئین کے تحت پارلیمنٹ ان صوبوں کی رضامندی اور درخواست کے ذریعے 2 یا 2 سے زیادہ صوبوں کے لیے قانون سازی بھی کر سکتی ہے۔ اگر وفاقی حکومت کسی صوبے میں ہنگامی حالت کا اعلان کرتی ہے تو اس صوبے کے بارے میں قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن ہنگامی حالت کے دوران پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیے گئے بل ایمرجنسی کے خاتمے کی تاریخ سے 6 ماہ کی میعاد ختم ہونے کے بعد تک نافذ العمل رہیں گے۔ اس کے باوجود ان ایکٹ کے تحت پہلے سے کیے گئے اقدامات درست رہیں گے۔