ملک میں بڑھتی مہنگائی کے باعث فنون لطیفہ سے وابستہ سرگرمیاں بھی متاثر ہونے لگی ہیں۔ لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں فیض احمد فیض کے نام سے منسوب گھر کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ چار کنال پر محیط یہ گھر 2008 میں کرائے پر حاصل کیا گیا تھا۔
سیکریٹری فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ عدیل ہاشمی کے مطابق فیض گھر میں فنون لطیفہ کی مختلف سرگرمیاں ہوا کرتی تھی جن میں ڈانس، پینٹنگ ، ادبی بیٹھکوں سمیت دیگر فنون لطیفہ سے وابستہ محافل شامل تھیں۔
عدیل ہاشمی، جو فیض احمد فیض کے پوتے بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک سال سے فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے تحت فیض گھر شدید مالی مشکلات سے دو چار ہوتا جارہا تھا۔ آئے دن بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث فیض گھر کو سنبھالنا ناممکن ہو چکا تھا۔
’اخراجات زیادہ تھے ہم اپنی جیب سے زیادہ عرصہ نہیں چلا سکتے تھے جتنی سکت تھی کرتے رہے لیکن اب مہنگائی کی وجہ سے اسے جاری رکھنا ناممکن ہو گیا تھا۔‘
پانچ لاکھ روپے کرایہ پر فیض گھر
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فیض احمد فیض کی بیٹی منیزے ہاشمی کا کہنا تھا کہ فیض احمد فیض کے نام سے منسوب گھر کا کرایہ پانچ لاکھ روپے تھا جسکا پچھتر فیصد وہ لوگ اپنی جیب سے ادا کر رہے تھے۔ صرف مہنگائی کی وجہ سے یہ ادارہ بند کرنا پڑا۔ فیض گھر کے تمام اسٹاف کو فارغ کردیا گیا ہے۔
’ یہاں 50 سے زائد بچے آرٹ کی مختلف سر گرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ فیض احمد فیض کا اتنا بڑا نام ہے لیکن ہمیں یہ ادارہ صرف مہنگائی کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ پہلے لوگ تھوڑا بہت سپورٹ کرتے تھے لیکن آئے روز اشیاء کی قمیتوں میں اضافے کی وجہ سے اب سے برداشت کرنا مشکل ہوگیا تھا۔‘
’شملہ پہاڑی والا گھر واپس لوں گی‘
منیزے ہاشمی کا کہنا ہے کہ شملہ پہاڑی لاہور میں ان کے والد کا گھر 1962 تک ان کے پاس رہا۔ اسی گھر میں رہتے ہوئے فیض صاحب کو پیس پرائز ملا۔ ایوب خان کی حکومت میں فیض صاحب 1951 اور 58میں اسی گھر سے گرفتار بھی ہوئے تھے پھر ان سے حکومت نے یہ گھر اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
’اب اس گھر کو ایک سرکاری دفتر بنا دیا گیا ہے میں حکومت سے دراخوست کروں گی کہ فیض احمد فیض کا گھر واپس کیا جائے۔ فیض گھر اسی تاریخی عمارت میں ہونا چاہیے، جہاں آرٹ کلاسز ہوں، فنون لطیفہ کی سر گرمیاں منعقد ہوں۔ جلد اس حوالے سے حکومت سے رابطہ کروں گی۔‘