کرکٹ کو سمجھنے اور اس سے دل چسپی رکھنے والا ہر شخص ایشزکرکٹ کے مقابلے ضرور دیکھتا ہے یا انہیں فالو کرتا ہے۔ ایشزسیریز انتہائی سنسنی خیزاور دلچسپ ہوتی ہے۔ ایشز 2023ءانگلینڈ میں کھیلی گئی اوراس کے تمام میچز دیکھنے کے قابل تھے۔ آخری میچ 31 جولائی کو کھیلا گیا جس کے بعد ایشز2023ءکے انتہائی سنسنی خیز مقابلے اختتام پذیر ہو گئے اور ساتھ ہی اسٹورٹ براڈ کاانتہائی شان دار کیریئر بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ایشز سیریز کا پہلا ٹیسٹ 16سے 20 جون کے درمیان برمنگھم میں کھیلا گیا،پہلا ٹیسٹ میچ ہی بہت اعصاب شکن تھا۔ آسٹریلیا کی شکست واضح نظر آ رہی تھی لیکن آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز اور ناتھن لیون نے چوتھی اننگزمیں نویں وکٹ کے لیے 55 رنز بنا کر آسٹریلیا کو صرف دو وکٹ کی فتح سے ہمکنار کرا دیا۔انگلینڈ ایک جیتا ہوا میچ ہار گیا۔ دوسراٹیسٹ لارڈز میں 28جون سے 2 جولائی کے درمیان کھیلا گیا، اس میچ میں بھی انگلینڈ ٹیم کی بد قسمتی آڑے آئے اور وہ 43 رنز سے شکست کھا گئی لیکن اس ٹیسٹ میچ سے ایشز کا ماحول بہت گرم ہو گیا۔ وجہ تھی انگلش وکٹ کیپرکا متنازع رن یا سٹمپ آﺅٹ، کیمرون گرین کے باﺅنسر کو لیفٹ کرنے کے بعد بال ڈیڈ ہونے سے پہلے جونی بیرسٹو نے کریز چھوڑ دی‘ آسٹریلوی وکٹ کیپر ایلکس کیری نے بالز وکٹوں پر ماردی اور ایمپائر نے جونی بیرسٹو کو سٹمپ قرار دے دیا۔ اگرچہ یہ عمل کھیل کی سپرٹ کے منافی تھا کیوں کہ جونی بیرسٹو کا رن لینے کا ارادہ نہیں تھا لیکن یہ رولز کے مطابق آؤٹ قرار دیا گیا تھا۔
انگلش میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا یہاں تک کہ جب آسٹریلین ٹیم اختتامی دن لنچ کے لیے لانگ روم سے واپس جارہی تھی تو ڈیوڈ وارنر اور عثمان خواجہ شائقین کی ہوٹنگ کا نشانہ بن گئے۔ ان پر سخت جملے کسے گئے۔ اس دوران انہیں ایم سی سی ممبران سے الجھتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ موقع پر موجود میزبان عملے نے صورت حال کو زیادہ خراب ہونے سے بچاتے ہوئے مہمان کرکٹرز کو فوری طور پر ڈریسنگ روم پہنچنے کا راستہ فراہم کیا۔ آسٹریلوی ٹیم مینجمنٹ نے ایم سی سی سے شائقین کے رویے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیاجس پر ایکشن لیتے ہوئے تین ایم سی سی ارکان کی رکنیت معطل کر دی گئی۔ یہاں میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ گراؤنڈ سے باہر آسٹریلوی اور برطانوی میڈیا بھی ایشز کھیل رہی ہوتی ہے لہٰذا اس واقعے سے دونوں ملکوں کے میڈیا میں ماحول کافی گرم ہو گیا۔ اب یہاں سے لگ رہا تھا کہ آسٹریلین ٹیم انگلش ٹیم کو سیریز میں واپس نہیں آنے دے گی لیکن انگلینڈنے تیسرا ٹیسٹ جیت کر سیریز میں واپسی کا اعلان کر دیا۔
چوتھے ٹیسٹ میں بارش نے آسٹریلیا کو بچا لیا ورنہ اننگز کی شکست پکی تھی۔ پانچواں اور آخری ٹیسٹ اوول میں27 سے 31 جولائی تک کھیلا گیا‘میچ کے تیسرے دن30جولائی کو اسٹورٹ براڈ نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے دنیائے کرکٹ کو حیران کر دیا کیوں کہ براڈ سے چار سال بڑے جیمز اینڈرسن کاابھی ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کاکوئی ارادہ نہیں۔ بہرحال یہ ٹیسٹ اس حوالے سے یاد گار بن گیا اورا سٹورٹ براڈ نے اپنی پرفارمنس سے بھی اس ٹیسٹ کو یاد گار بنا لیا۔ انہوں نے بطور بیٹسمین جس آخری بال کا سامنا کیا اس پر چھکا لگایا اور بطور بولر آخری بال پروہ وکٹ لی جوبرطانیہ کی فتح کے درمیان دیوار بن کر کھڑی تھی، پانچواں ٹیسٹ انگلینڈ نے جیت کر سیریزدو دو سے برابر کردی۔ سیریزکا دی اینڈ ہو گیا اورا سٹورٹ براڈ کا کیریئر بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
اسٹورٹ براڈ نے 21 سال کی عمر میں 2007 ءمیں سری لنکاکے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا اور اسی سال ٹی20 ورلڈکپ میں بھارت کے یوراج سنگھ نے انہیں 6 بالز پر 6 چھکے بھی جڑ دیے۔ تاہم نوجوان فاسٹ بولر نے اس چیز کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا اورمڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں 843 وکٹیں حاصل کیں جس میں 604 وکٹیں ٹیسٹ‘ 171 وکٹیں ون ڈے جبکہ 65 وکٹیں ٹی20 میں حاصل کیں۔ اسٹورٹ براڈ انگلینڈ کی جانب سے دوسرے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے فاسٹ بولر بھی ہیں۔صرف 15 رنز دے کر 8 وکٹیں ان کی بہترین بولنگ رہی۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں براڈ 843 وکٹیں لے کر ساتویں نمبر پر رہے جبکہ سری لنکا کے مرلی دھرن 1 ہزار 347 وکٹوں کے ساتھ پہلے، آنجہانی شین وارن 1 ہزار ایک وکٹوں کے ہمراہ دوسرے، جیمز اینڈرسن 976 وکٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہیں۔وسیم اکرم پاکستان کی جانب سے 916 وکٹیں حاصل کرکے دنیا کے چھٹے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ہیں جبکہ فہرست میں وقار یونس 789 وکٹوں کے ہمراہ 9ویں نمبر پر موجود ہیں۔
اسٹورٹ براڈ نے جس شان دار طریقے سے اپنے ملک کی نمائندگی کی اسی شان دار طریقے سے انہیں رخصت بھی کیا گیا۔ میں ٹی وی سکرین پر ان کی رخصتی کے مناظر دیکھ رہا تھا، انگلش شائقین کھڑے ہو کر جس طرح انہیں خراج تحسین پیش کر رہے تھے وہ قابل دید تھا، ناصر حسین بلاشبہ اس وقت دنیا کے بہترین کمنٹیٹرز میں شمار ہوتے ہیں،وہ بار بار تھینک یو اسٹورٹ براڈ،تھینک یو اسٹورٹ براڈ کہہ رہے تھے۔ا سٹورٹ براڈ کی آنکھیں نم تھیں‘ اس موقع پر ان کی اہلیہ اپنے بچوں کے ہمراہ موجود تھیں‘ ان کے والد کرس براڈ بھی گراﺅنڈ میں موجود تھے۔یہ وہ لمحات تھے جو زندگی بھرا سٹورٹ براڈکے ساتھ رہیں گے۔ ملک کی نمائندگی کرنا کسی بھی کھلاڑی کا اعزاز ہوتا ہے لیکن ایسی عزت کے ساتھ رخصت ہونا یہ اس سے بھی بڑا اعزازہے۔ میں جب اس تقریب کو دیکھ رہا تھا تو مجھے بے اختیار آسٹریلین تاریخ کے کام یاب ترین کپتان سٹیو وا کے ریٹائرمنٹ کے لمحات یاد آگئے۔ انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ انڈیا کے خلاف اپنے ہوم گراﺅنڈ سڈنی میں کھیلا تھا۔ جب وہ اپنی آخری اننگز کھیل کر رخصت ہو ر ہے تھے توتمام تماشائی کھڑے ہو کر انہیں شان دار کیریئر پر داد تحسین پیش کر رہے تھے اور پورا سٹیڈیم اس وقت تک تالیاں بجاتا رہا جب تک اسٹیو وا ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئے۔
اسی طرح آپ کو سچن ٹنڈولکر کاالوداعی ٹیسٹ میچ بھی یاد ہو گا۔ انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ ممبئی کے وانکھیڈے کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا تھا۔ جب وہ رخصت ہو رہے تھے تو بالی ووڈ کے بڑے بڑے سٹارز انہیں خراج تحسین پیش کرنے سٹیڈیم آئے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے اپنی الوداعی تقریر کی تھی تو پورا سٹیڈیم دم سادھے ان کی تقریر سن رہا تھا۔ ان کی بیوی اور بچے ان کے ساتھ کھڑے تھے اور جس عزت کے وہ مستحق تھے انہیں اسی عزت کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ زندہ قومیں بلاشبہ اپنے ہیروز کو ایسے ہی رخصت کرتی ہیں مگر افسوس جب میں اپنے کھلاڑیوں کے کیریئر کے اختتام پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے دکھ،افسوس، کرب اور مایوسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
آپ جاوید میاں داد سے لے کر انضمام الحق تک، وسیم اکرم سے لے کر وقار یونس تک ،عبدالرزاق سے لے کر محمد یوسف تک اور سعید انور سے لے کرثقلین مشتاق کسی کرکٹر کو لے لیں ہم نے کسی کو بھی اس عزت سے رخصت نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے۔لوگ ہمیشہ سوال کرتے ہیں ان لوگوں کے بعد ہمیں ان کے متبادل نہیں ملے۔ بھئی اگر آپ نے اپنے سٹارز کو وہ عزت دی ہوتی جس کے وہ مستحق تھے تو آج آپ کے پاس ہر پلیئر کا متبادل موجود ہوتا۔ جب آپ اپنے ہرمیچ ونر اور سٹار کو میچ فکسر اور جواری کے خطاب سے رخصت کریں گے تو پھر آپ ہی بتائیں آپ کو کھلاڑی کہاں سے ملیں گے؟ کچھ اسی قسم کا شکوہ وسیم اکرم نے20نومبر2022ءکو آسٹریلین ٹی وی وائلڈ ورلڈ آف سپورٹس پر بیٹھ کر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا” دنیائے کرکٹ مجھے کرکٹ ہسٹری کا بہترین لیفٹ آرام بولر کہتی ہے جب کہ اپنے ملک کے لوگ مجھے میچ فکسر کہتے ہیں، کیا دکھ اور کیا درد تھا ان کے لہجے میں؟ جب میں نے وسیم کے اکرم کے منہ سے یہ شکوہ سنا تو یقین کریں میرا سر شرم سے جھک گیا۔ وسیم اکرم کے بارے میں سٹیوا وا نے کہا تھا اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو بھی میں وسیم اکرم کو بولنگ کرتے ہوئے دیکھنا چاہوں گا۔ دنیا کے کسی بھی بڑے بیٹسمین سے پوچھ لیں کہ آپ کو کسی بولر کو کھیلتے ہوئے مشکل پیش آتی تھی تو وہ وسیم اکرم کا نام لے گا لیکن ہم نے اس وسیم اکرم کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کیا وہ جواری اور میچ فکسر جیسے القابات کا مستحق تھا؟ ثقلین مشتاق دوسرا کا موجد تھا۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی آف سپنر یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا ہم نے اس کے ساتھ کیاکیا؟ سعید انور جیسا سٹروک میکر ، ان جیسا سٹائلش بائیں ہاتھ کا بلے باز آج تک پاکستان میں نہیں آیا، ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا؟انضمام الحق ٹیسٹ کرکٹ میں آرام سے10 ہزار رنز کر سکتے ہیں مگر ہم نے انہیں جلدی ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیا۔ ایک لمبی فہرست ہے، میں یہاں نام لکھنا شروع کروں تو ایک نہیں بہت سے صفحات درکار ہوں گے۔ ہم جب تک اپنے ہیروز کو اس طرح ذلیل کرتے رہیں گے ہم اس وقت تک دنیا میں ذلیل ہوتے رہیں گے۔ ہمارے کرکٹ بورڈ کو اب یہ پالیسی بنا نی چاہیے کہ ہمارا جو بھی سٹار کرکٹرریٹائر ہو گا اسے ایک فیئر ویل میچ ضرور دیا جائے گا تاکہ وہ عزت کے ساتھ رخصت ہواوردنیا کو پتہ چلے ہم محسن کش نہیں ہیں۔ ورنہ پھرہمارا وہی حال ہو گا جو اس وقت ویسٹ انڈیز کا ہو رہا ہے۔ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کی دو دفعہ کی ورلڈ چیمپیئن ٹیم اس دفعہ ورلڈ کپ کے لیے ہی کوالی فائی نہیں کر سکی، کیا آپ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟