ہم فوج کو پابند کریں گے وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

جمعرات 3 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ وہ فوج کو پابند کریں گے کہ وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے۔ اس سے پہلے چیف جسٹس نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پرازخود نوٹس لینے سے انکار کردیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔

آج صبح سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل  پر سوموٹو لینے کی درخواست کر دی۔

تاہم چیف جسٹس  عمر عطا بندیال نے سوموٹو لینے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح اکیلے سوموٹو نہیں لے سکتے، اس کے لیے مشاورت کا ایک طریقہ کار ہے۔

اس سے قبل اعتزاز احسن نے عدالت میں ترمیمی بل پڑھ کر سنایا۔ بل کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی بھی وقت بغیر وارنٹ کسی کے گھر میں داخل ہو کر تلاشی لے سکتی ہیں۔ یہ طاقت کا قانون ہے اور دائمی مارشل لاء کے مترادف ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پر سو موٹو نوٹس لیں۔

 اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس طرح اکیلے سوموٹو نہیں لے سکتے، اس کے لیے مشاورت کا ایک طریقہ کار ہے۔

جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 6 ججز بیٹھے ہیں، سب ججوں کو بلائیں اور اس پر مشاورت کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زیادہ علم نہیں اس بل بارے اخبارات میں پڑھا ہے، خوش قسمتی سے بل ابھی زیر بحث ہے۔ دیکھتے ہیں پارلیمنٹ کا دوسرا ایوان اس قانون پر کیا رائے دیتی ہے۔

چیف جسٹس کی آبزرویشنز کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل کا اغاز کردیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالت کے زمرے میں نہیں آتا اس لیے اس میں اپیل کا حق نہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے حوالے سے دیئے گئے جرائم میں سویلین کے ٹرائل کا آئینی جائزہ لے رہے ہیں۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق مقننہ کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے، بنیادی حقوق کا تصور یہ ہے کہ ریاست اگر چاہئے بھی تو واپس نہیں لے سکتی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتیں ٹریبونل کی طرح ہیں جو آرمڈ فورسز سے وابستہ افراد اور دفاع کے متعلق ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عام شہریوں کا کسی جرم میں آرمڈ فورسز سے تعلق ہو تو ملٹری کورٹ ٹرائل کر سکتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اور آئین میں واضح لکھا ہے یہ قانون ان افراد سے متعلق ہے جو آرمڈ فورسز کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا’ میں 2015 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہوں گا، فیصلے میں ملٹری تنصیبات پر حملے کا ذکر بھی موجود ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ایسے افراد کے لیے کیا ایک متوازی جوڈیشل سسٹم بنا دیا گیا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عام شہریوں کا کسی جرم میں آرمڈ فورسز سے تعلق ہو تو ملٹری کورٹ ٹرائل کر سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایکسکلوسیو دائرہ اختیار ملٹری کورٹس کو دیا گیا تاکہ کوئی کہہ بھی نہ سکے کہ انسداد دہشتگری کی عدالت ٹرائل کیوں نہیں کر رہے؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا’ میں تو یہی سمجھا ہوں کہ آپ کہہ رہے ہیں ملٹری کورٹس عدالت کی کیٹیگری میں آتے ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا ’آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں آئین میں ترمیم اس لیے کرنا پڑی تب ملزمان کا آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں تھا۔ اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئینی ترمیم اس لیے ضروری نہیں کہ موجودہ ملزمان اور آرمڈ فورسز کے درمیان تعلق موجود ہے۔ یہ آپ نے اچھی تشریح کی ہے۔ آپ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق ملٹری کورٹ سے سلب کرنا چاہتے ہیں۔ آرمڈ فورسز سے تعلق پر ٹرائل ہو تو یہ بھی دیکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹ میں سویلین کا ٹرائل ایک متوازی جوڈیشل سسٹم نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل عدالت ممکن نہیں ہو گی، ایک جج دستیاب نہیں ہیں۔

بعض ججز چھٹیوں پر جانا چاہتے ہیں۔ جون سے کام کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک پلان آف ایکشن دینا ہو گا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ہمیں اعتزاز احسن صاحب نے بتایا کہ پارلیمنٹ بہت جلدی میں ہے، اس معاملے پر آپ کیا کہتے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’کوئی ڈیڑھ گھنٹہ مزید لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ دشمن ممالک کے جاسوس اور دہشت گردوں کے لیے ملٹری کورٹ کا ہونا ضروری ہے۔

ہم عدالت کو یقین دہانی کروا چُکے ہیں کہ کن وجوہات پر مشتمل فیصلے دیں گے۔

آئین وقانون کو پس پشت ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی۔ اعتزاز احسن اور میرے والد ایم آرڈی میں تھے، جیلوں میں بھی جاتے تھے۔ مگر ان لوگوں نے حملے نہیں کیے۔

انہوں نے کہا کہ 9مئی کو جو کچھ ہوا آپ کے سامنے ہے۔ ایک بات یاد رکھیں وہ فوجی ہیں، ان پر حملہ ہو تو ان کے پاس ہتھیار ہیں۔ وہ ہتھیاروں سے گولی چلانا ہی جانتے ہیں۔

ایسا نہیں ہوسکتا ان پر کہیں حملہ ہورہا ہو تو وہ پہلے ایس ایچ او کے پاس شکایت جمع کرائیں، وہ 9 مئی کو گولی چلاسکتے تھے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ گولی چلائی کیوں نہیں یہ بتائیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا’ ہم نہیں چاہتے وہی صورتحال پیدا ہوکہ اگلی مرتبہ گولی بھی چلائیں، اس لئے ٹرائل کررہے ہیں، یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں۔

اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ان کی حکومت 12اگست کو جارہی ہے یہ کیا یقین دہانی کروائیں گے۔

اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے عدالت سے چھٹیوں پر جانے سے پہلے فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ اتوار کو بھی صبح 8 سے شام 8 بجے تک بیٹھیں اور فیصلہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں ذاتی طور پر حاضر ہوں، روز رات 9بجے تک بیٹھتا ہوں۔ 2 ہفتوں تک فوجی عدالتوں کے خلاف کیس کی سماعت ممکن نہیں۔ بعض ججز کو صحت کے سنگین ایشو ہوسکتے ہیں، کچھ ججز کو چھٹیوں کی ضرورت ہے، میرے ایک ساتھی جج نے ایک اہم ذمہ داری نبھانی ہے میں وہ یہاں بتانا نہیں چاہتا۔

انہوں نے کہا کہ اس بنچ کے ممبران کا بھی حق ہے وہ اپنا وقت لیں، ایک ممبر کو محرم کی چھٹیوں سے بھی واپس بلالیا گیا ہے، ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور یہ عدالت بھی، آپ نے ساری صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ جنہوں نے اس عدالت کو فعال بنانے میں مدد کی ہے ان کے لیے دل میں احترام ہے۔ عدالتی امور چلتے رہنے چاہئیں اس لیے میں دل سے کوشش کررہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ بہت سنجیدہ ہے، میں کبھی نہیں چاہوں گا اس ملک کی فوج اپنے شہریوں پر بندوق اٹھائے، فوج سرحدوں کی محافظ ہے۔ میانوالی ایئربیس گرائی گئی، وہاں میراج طیارے کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فوج کو پابند کریں گے وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے۔

بعدازاں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp