وزیراعظم شہبازشریف نے نگراں وزیراعظم کے نام کی مشاورت اور اسمبلی تحلیل کرنے کے کی تاریخ پر مشاورت کے لیے اتحادیوں کو عشائیے پر مدعو کیا اور اسمبلی کی تحلیل کی ممکنہ تاریخ بتادی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ قومی اسمبلی ممکنہ طور پر 9 اگست کو تحلیل کردی جائے گی۔ یاد رہے کہ وی نیوز نے گزشتہ روز خبر دی تھی کہ وزیراعظم نے نگراں وزیراعظم کے نام پر مشاورت کے لیے اتحادیوں کو آج رات عشائیے پر مدعو کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق عشائیے میں ارکان پارلیمنٹ کی من پسند کھانوں سے تواضع کی گئی، چکن منچورین، چکن کڑاہی، مٹن کڑاہی، باربی کیو، دیسی مرغی، بیف بریانی، ماش دال، چکن شامی کباب اور فش بھی مینیو میں شامل تھے۔
مزید پڑھیں
عشائیے سے قبل شہباز شریف نے پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں نگراں سیٹ اپ سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا اور اس معاملے پر مشاورت کی گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسمبلی توڑنے کی سمری صدر کو 9 اگست کو بھیج دیں گے، صدر کے دستخط نہ کرنے پر 48 گھنٹے بعد اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔
وزیراعظم نے اتحادیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے نام پر مشاورت کل سے شروع ہو گی، 2سے 3 دنوں میں نگراں وزیراعظم کے نام پر مشاورت مکمل کر لی جائے گی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسے مشکل وقت میں حکومت سنبھالی جب ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تاہم 15ماہ میں تنقید کے باوجود موجودہ حکومت نے سیاست کی قربانی دے کرملک کو بھنور سے نکالا۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جو کانٹے بوئے تھے وہ پی ڈی ایم حکومت کو ہٹانے پڑے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی ضد نے ہر ادارہ اور شعبہ تباہ کردیا تھا لیکن اتحادیوں کے تعاون سے ہر مشکل پرقابو پالیا گیا۔
آئندہ چند روز میں ہماری حکومت ختم ہونے والی ہے
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے انپے خطاب میں کہا کہ مخلوط حکومت کا سفر 11 اپریل 2022 کو شروع ہوا، اتحادیوں نے محبت سے اعتماد کا ووٹ ڈالا، ہم نے جس وقت حکومت سنھبالی تو ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملہ دور تک چلا گیا، ہمیں اس بات کا اندازہ تھا، ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے اب آئندہ چند روز میں ہماری حکومت ختم ہونے والی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سب دعا کریں کہ ہم سب کی محنت اور لگن سے ملک کے جو حالات بہتر ہوئے ہیں، یہ مزید بہتری کی طرف جائیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ایک عمارت بنانے میں کئی سال لگتے ہیں، لیکن اسے گرانے میں چند منٹ اور سیکنڈ درکار ہوتے ہیں۔ ہماری مخلوط حکومت، ہمارے اتحادی ساتھیوں نے ہمت نہیں ہاری، سر منڈایا تو اولے پڑے، مشکل صورت حال کا سامنا رہا جو نا قابل بیان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیلاب بے پناہ تباہ کاریاں لایا، ہمیں مہنگائی کے طوفان نے آدبوچا، غریب آدمی کی حالت خراب سے خراب تر ہو گئی لیکن دوسری جانب ایک مائنڈ سیٹ نے معاشرے میں گالم گلوچ سے جو زہر گھولا اس کے اثرات نمایاں ہو گئے تھے، مزید ہوں گے اور ایک عرصے تک رہیں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عمران نیازی اور اس کے ٹولے نے باقاعدہ ایک شیطانی اور سازشی ذہن کے ساتھ ملک میں افراتفری پھیلائی، روز سننے کو ملتا تھا، آج لانگ مارچ ہو رہا ہے، آج دھرنا ہو رہا ہے۔ فلاں جگہ کا گھیراؤ ہو رہا ہے فلاح کو چور ڈاکو کہا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دُنیا کا کوئی بھی ملک اور ریاست اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہاں سیاسی استحکام نہ آئے، لیکن ہم نے حکومت سنبھالی تو ہمیں معاشی اور سیاسی دونوں عدم استحکام سے دو چار ہونا پڑا۔
آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہوتا تو لوگوں کا جینا دوبھر ہو جاتا
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا، یقین کریں اس نے میری نیندیں حرام کر دی تھیں، اسحاق ڈار مطمئن تھے، وہ کہتے تھے اگر آئی ایم ایف کا پروگرام نہ بھی ہوا تو ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے۔ لیکن اگر آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ہوتا تو ہم بہت مشکلات میں آ جاتے، لوگ بے روزگار ہو جاتے، لوگ سڑکوں پر آ جاتے، عالمی مالیاتی ادارے بھاگ جاتے، بے روزگاری، مہنگائی اور ڈالر وہاں پہنچ جاتا جہاں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں نے پیرس میں آئی ایم ایف کی سربراہ سے گفتگو کی تو پہلا آدھا گھنٹہ انتہائی سرد رہا، انہوں نے جواب دے دیا تھا، لیکن میں اور میرے ساتھیوں سے جو بن پڑا ہم نے کیا، اللہ نے ہمارے سروں پر ’ہما‘ بٹھائی اور ہم سرخرو ہوئے۔
عمران نیازی نے دوست ملک کے بغیرمسئلہ کشمیر حل کرنے کا دعویٰ کیا
شہباز شریف نے کہا کہ عمران نیازی نے خارجی محاذ پر وہ تباہی کی عمران نیازی نے کہ میں بیان نہیں کر سکتا، ہمارے دوست ملکوں نے خود بتایا کہ ہمارے ساتھ اس شخص نے یہ یہ کیا، عمران نیازی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم ایک دوست ملک کے بغیر کشمیر کا مسئلہ حل کر دیں گے۔
یہ بات کوئی راز نہیں ہے؟ ملتان کا وہ کون شخص تھا جس نے کہا تھا کہ ہم ایک دوست ملک کے باوجود مسئلہ کشمیر حل کر لیں گے، ایک اور دوست ملک سے کہا گیا آپ اپنے ڈالر اپنے پاس رکھیں، ایسا کہنے والا کون تھا، میں اس ملک کے بارے میں کوئی انکشاف نہیں کر سکتا لیکن اتنا کہتا ہوں کہ یہ بھی ہمارا دوست ملک تھا۔
عمران نیازی نے چین پر شرمناک الزامات لگائے
وزیر اعظم نے کہا کہ عمران خان نیازی نے چین کے بارے میں شرمناک الزامات لگائے، خارجی محاذ پر یہ وہ تباہی تھی جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں اورہمارا خدا جانتا ہے، لیکن ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ہم سب نے اپنے دوست ممالک کو کس طرح راضی کیا یہ ہم ہی جانتے ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ اب چین کے نائب وزیر اعظم آئے تو ہمارے چین کے ساتھ سرد مہری کا شکار تعلقات میں پھر گرمجوشی نظر آئی۔
جس ملک نے آپ کے ملک میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہو اور اس کے بعد ان کا جو منافع تھا جو پیسہ واپس نہ گیا ہو اور پھر بھی انہوں نے منہ سے ایک لفظ نا نکالا ہو، ایسے دوست ملک کے خلاف سابق وزیر اعظم ہاؤس سے وہ الزام تراشیاں کی گئیں کہ بیان نہیں کر سکتے۔
وہ ملک جس نے جنگوں میں ساتھ دیا ہو، امن میں ساتھ دیا ہو، اقوام متحدہ میں ساتھ دیاہو، پاکستان کے احساس معاملات میں ہمارا ساتھ دیا ہواورپھر بھی ہمارے دوست ملک چین نے کبھی زبان پر شکوہ بھی نہیں لایا۔ اس دوست ملک کے خلاف ہمارے سابق وزیراعظم ہاؤس سے الزام تراشیاں کی گئیں۔
یہ سب پاکستان کے خلاف دشمنی کی گئی، میں بالا خوف تردید کہہ رہا ہوں کہ اس کی مثال پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ وہ ساری صورت حال تھی جس کا ساڑھے 15 ماہ مخلوط حکومت سامنا کرتی رہی، ہمیں اپنے دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات دیگر عالمی اداروں نے ہمارا ساتھ دیا۔
معیشت ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتے، اس حوالے سے ہمارے وزیر خزانہ لاحق تحسین ہیں۔
معاشی بہتری کے لیے ہمیں انقلابی سرجیکل آپریشن کرنا ہوگا
ہمیں انقلابی سرجیکل آپریشن کرنا ہوگا، شہباز شریف کو کچھ نہ ہو، غریب پر اور ٹیکس لگا دو یہ نہیں چلے گا، اگر ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور خوشحالی لانی ہے تو اس کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا، اس میں سب سے پہلا کردار حکومت وقت ہو گا، اور پھر صاحب حیثیت لوگوں کو آگے آنا ہو گا اور ملک اور قوم کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ غریب بچوں، بچیوں کو باعزت روزگار دینا ہے تعلیم دینی ہے اور صحت کے وسائل مہیا کرنے ہیں، ہمیں محنت اور مشقت کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ملک کی تمام اکائیوں بشمول بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب کو مل کر ایک کنبے کی مانند رہ کر ترقی کی طرف آگے بڑھنا ہوگا۔ نگراں حکومت کے حوالے سے ہماری اتحادیوں سے بھرپور مشاورت ہو گی۔