5 اگست2019 کا بھارتی اقدام: مقبوضہ کشمیر میں کیا کچھ ہوا؟

ہفتہ 5 اگست 2023
author image

دانش ارشاد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

5 اگست2019کو بھارت نے زیر قبضہ ریاست جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور اسٹیٹ سبجیکٹ سے متعلق صدراتی حکم نامہ 35 اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ بھارت کا وفاقی علاقہ کہلاتا ہے۔

صدارتی حکم نامے کے مطابق جموں و کشمیر کی اب قانون ساز اسمبلی ہوگی جب کہ لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا ہے، جو کسی بھی قانون سازی سے مبرَّا ہے۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ(راجیہ سبھا) میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کیا تھا۔ جس کی منظوری کے بعدکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔

خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیر میں بلیک آوٹ

5 اگست کو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھی ہندوستان کے اس فیصلے کے خلاف سخت ردعمل سامنے آیا۔

لگ بھگ ایک سال تک کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ رہا۔ ایک لمبے عرصے تک نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کو کشمیر میں کوریج کے لیے نہیں جانے دیا گیا۔بلیک آوٹ کا یہ عالم تھا کہ ’ ایک دوست کے مطابق ان کی ایک رشتہ دار حج پر گئیں تھیں۔ان کی واپسی کے روز ان کا بیٹا استقبال کرنے سری نگر ائیرپورٹ گیا۔

جب حاجی ائیرپورٹ سے باہر آنا شروع ہوئے تو وہ پھولوں کا ہار ہاتھوں میں تھام کر والدہ کے انتظار میں کھڑا ہوگیا۔والدہ کے گروپ کے سارے حاجی ائیرپورٹ سے باہر آگئے لیکن اس کی والدہ دکھائی نہ دیں۔

 

مضطرب بیٹے نے والدہ کے بارے میں پوچھا تو گروپ کے حاجیوں نے افسردہ لہجے میں بتایا کہ آپ کی والدہ 20روز قبل سرزمین حجاز میں انتقال کرگئی تھیں، ان کی وہیں تدفین کر دی گئی۔ذرائع مواصلات کی پابندیوں کی وجہ سے آپ کو اطلاع نہیں دی جا سکی۔‘

آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد کیا تبدیلیاں آئیں؟

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے اور یہ فیصلہ اس کے عوام نے کرنا ہے۔ تاہم ہندوستان کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیر میں ’پشتنی باشندہ‘ سرٹیفکیٹ ختم ہو گیا جس کی بنیاد پر کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔

اب سب کو ڈومیسائل کا اجرا کیا جائے گا جس سے یہ فرق ختم ہو جائے گا کہ کون کشمیری ہے؟ اور کون غیر کشمیری ہے؟۔ ایسے میں اگر کبھی کشمیر کے معاملے پر رائے شماری ہوتی ہے تو ووٹ دینے کے لیے کشمیریوں کے پاس اپنی کوئی شناخت نہیں ہو گی۔

اب جموں و کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بھی بسایا جا رہا ہے۔ سری نگر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 5اگست 2019کے بعد ہندوستان نے تقریباً 3لاکھ کے لگ بھگ نئے ڈومیسائلز جاری کیے ہیں۔

یہ ڈومیسائل کشمیر میں بسنے والے 1947کے مہاجرین، مغربی پاکستان کے شرنارتھی اور ایک لمبے عرصے سے کشمیر میں رہنے والوں کو جاری کیے گئے ہیں۔

کیا سپریم کورٹ آف انڈیا کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کر پائے گی؟

5 اگست2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے 4 سال بعد ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کی بحالی کے لیے دائر درجن بھر سے زیادہ درخواستوں کی سماعت شروع کی ہے۔

یہ سماعت چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بنچ کر رہا ہے۔ سماعت 2 اگست 2023کوشروع ہوئی جو روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔ سپریم کورٹ نے سماعت میں درخواست گزاروں کو اپنا مؤقف دینے کے لیے 60گھنٹے  دیے جن میں سے 3 وکلا کو اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے 10، 10گھنٹے کا وقت دے رکھا ہے۔

درخواست گزاروں کا مؤقف سننے کے بعد حکومتی وکلا کو دلائل کا وقت دیا جائے گا۔ اس سماعت سے چند دن قبل چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس دھنن جے چندراچوڑ نے سری نگر کا ایک روزہ دورہ بھی کیا تھا۔

 

ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والے آئینی بنچ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بھوشن رام کرشن گاوائی اور جسٹس سوریا کانت شامل ہیں۔

ترکی میں مقیم کشمیری صحافی افتخار گیلانی کے مطابق بنچ میں موجود جسٹس سنجے کشن کول کے علاوہ دیگر 3 جج مستقبل میں ہندوستان کے چیف جسٹس بنیں گے۔

بنچ میں شامل جسٹس سنجے کشن کول کشمیری پنڈت ہیں جبکہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے اکلوتے دلت جج جسٹس بھوشن رام کرشن گاوائی بھی بنچ کا حصہ ہیں۔ جو مستقبل میں پہلے دلت چیف جسٹس ہوں گے ۔

سماعت میں کیا ہو رہا ہے؟

درخواست گزار اکبر لون کے وکیل کپل سبل نے دلائل دیتے ہوئے آرٹیکل 370 کی شق 3 پر اپنے ریمارکس دیے جن میں کہا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر اور بھارتی یونین کے درمیان تعلقات میں کسی قسم کی تبدیلی ریاست کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر ہی کی جا سکتی ہے۔

تاہم 5 اگست 2019 کو نئے داخل کردہ آرٹیکل 367(4)(د) نے آرٹیکل 370(3) میں ترمیم کر کے ’ریاست کی دستور ساز اسمبلی‘ کو ’ریاست کی قانون ساز اسمبلی‘ سے بدل دیا تھا۔

وکیل کپل سبل نے استدلال کیا کہ گورنر کے ذریعے فراہم کردہ ریاستی حکومت کی رضامندی لوگوں کی مرضی ظاہر نہیں کرتی۔انہوں نے دلیل دی کہ مقبوضہ کشمیر کا آئین علیحدہ ہے اور اس لیے پارلیمنٹ کے پاس ریاست کے لیے قانون سازی کرنے کی گنجائش محدود ہے۔

ادھر آئینی بینچ نے انہیں یہ سوال کرنے سے روک دیا کہ ’کیا کوئی شق، جس کا ارادہ 1950 میں عارضی ہونا تھا، 1957 میں مستقل ہو سکتی ہے؟، صرف اس لیے کہ ریاست کی آئین ساز اسمبلی نے ریاست کے لیے آئین بنانے کا اپنا کام مکمل کر کے خود کو تحلیل کر لیا تھا۔‘

وکیل نے وضاحت کی کہ آرٹیکل 370(3) میں اس شرط کو شامل کیا گیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ریاست کی آئین ساز اسمبلی کے وجود کے دوران آرٹیکل کو تبدیل کیا جا سکے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ آرٹیکل 370 کے نوٹ میں لفظ ’عارضی‘ کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرنے کا مقصد پورا کرتا تھا کہ جب آرٹیکل 370 متعارف کرایا گیا تھا تو جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش کے ساتھ اس میں ترمیم یا اسے منسوخ کیا جا سکتا تھا۔

وکیل کے مطابق آئین بنانے والوں کے خیال میں ریاست کی آئین ساز اسمبلی کو خصوصی اختیار حاصل تھا کہ وہ ریاست کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا تعین کرے اور آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کی سفارش کرے۔

دلائل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین بذات خود ایک سیاسی دستاویز ہے، ایک بار جب آئین نافذ ہو جاتا ہے تو تمام ادارے آئین کے تحت چلتے ہیں اور وہ ادارے آئین کی دفعات کے مطابق اپنے اختیارات کے استعمال میں محدود ہوتے ہیں۔‘ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پارلیمنٹ خود کو آئین ساز اسمبلی کے طور پر تبدیل نہیں کر سکتی، یہ ہو چکا ہے، پارلیمنٹ کو ریاست کی مقننہ کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار کہاں سے ملتا ہے؟

 

وکیل کا کہنا تھا کہ ’اس وقت 562 شاہی ریاستیں تھیں جنہیں ضم کرنا تھا، ان میں سے ہر ایک کی کچھ شرائط تھیں لیکن جموں و کشمیر ایک مستثنیٰ تھا اور اس لیے اسے آئینی طور پر آرٹیکل 370 سے پیوست کیا گیا تھا، آپ جموں و کشمیر کے لوگوں کو تنگ نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ دوسری ریاستوں کے برعکس یہاں بقایا طاقت ریاستی مقننہ/ریاستی حکومت کے پاس ہے۔ وکیل سبل نے افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ جمہوریت کے بر عکس کیا گیا اقدام ہے، آئینی اعتبار سے کبھی بھی کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔سماعت کے دوران ججوں کے ریمارکس بھی حوصلہ افزا ہیں۔

آرٹیکل 370اور35اے کیا ہیں؟

ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل تھی، اس کے مطابق ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ تھا۔

 اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے۔

مذکورہ 3 امور کے علاوہ ہندوستان کے آئین کے مطابق تمام دیگر امور دفعہ370کے تحت ہیں۔ اسی طرح دفعہ 35 اے کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں صرف ریاستی باشندے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں، غیر ریاستی باشندے جموں و کشمیر میں جائیداد بنا سکتے ہیں۔وہاں ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔

ووٹ ڈالنے، ریاست کے اندر روزگار حاصل کرنے اور مستقل سکونت کا حق صرف ریاست کے باشندوں کا ہے۔ دفعہ 35اے دراصل اس قانون کی توثیق تھی جو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927میں کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا۔

ان عوامل میں ایک وجہ کشمیری پنڈتوں کا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

سپریم کورٹ سے کشمیریوں کو توقعات

سری نگر کے ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کی اس سماعت سے کشمیریوں کی توقعات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 3 دنوں میں اس کیس کی سماعت کی لائیو سٹریمنگ کشمیر میں ٹاپ ٹرینڈ کر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب آرٹیکل 370ہندوستان کی سپریم کورٹ میں زیر بحث ہو اس سے قبل بھی 3 مرتبہ آرٹیکل 370زیر بحث آ چکا ہے تاہم اس وقت کی سماعت اور اب کی سماعت میں فرق یہ ہے کہ اُس وقت یہ دفعات ہندوستان کے آئین کا حصہ تھیں اور اب یہ آئین کا حصہ نہیں ہیں اور بحالی کی بات کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی کسی قانون سازی پر روک لگایا ہو یا اسے رول بیک کیا ہو تاہم کشمیریوں کو اب سپریم کورٹ سے ہی امیدیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ کچھ اصلاحات کے ساتھ پارلیمنٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ کا فیصلہ اختلافی نوٹ کے ساتھ ہو گا جس میں دو ججوں کے اختلافی نوٹ کے ساتھ فیصلہ برقرار رکھا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آرٹیکل 370بحال کرتی ہے تو کشمیر میں جشن کا ساماں ہو گا اور اگر وہ پارلیمنٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو شاید  کوئی ردعمل دیکھنے کو نہ ملے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں کیسز کی سماعت کی لائیو سٹریمنگ ہوتی ہے جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔

اسی حوالے سے افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ ’دلچسپ بات ہے کہ چیف جسٹس، جسٹس دھنن جے چندراچوڑ نے سرینگر کے ایک روزہ دورہ سے واپسی پر دفعہ 370پر زیر التوا درخواستوں پر سماعت کرنے کا اچانک فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ آخر سرینگر میں ان کو کیا کچھ نظر آیا، جس کی وجہ سے انہوں نے سماعت کا فیصلہ کیا، تجسس ابھی تک برقرار ہے۔ گو کہ کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن، بھارت کے کسی بھی معتبر ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے۔

 چونکہ اس مقدمہ کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچہ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچہ اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ داد رسی کا انتظام کر پائیں گے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لکھاری آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت 'نیو نیوز' کا حصہ ہیں اور عرصہ 12 سال سے بطور صحافی اور محقق مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات سے وابستہ رہے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp