پاکستان میں صدر مملکت، وزیراعظم، وزرا، چیئرمین سینٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلٰی، ججز، سرکاری افسران اور حتٰی کہ سرکاری وفد کے ہمراہ جانے والے عام افراد کو بیرون ملک دورے کے دوران ملنے والے تحائف توشہ خانہ کے ضابطہ کار 2018 کے تحت کابینہ ڈویژن کے نوٹس میں لانا اور یہاں جمع کروانا ضروری ہیں۔
جس کے بعد یا تو انہیں موجودہ قانون کے تحت نصف قیمت پر خریدا جا سکتا ہے یا پھر انہیں سرکاری طور پر نیلام کر دیا جاتا ہے۔ تاہم نصف قیمت پر تحائف خریدنے کا قانون دسمبر 2018 میں وزیراعظم عمران خان نے متعارف کروایا تھا ۔ تاہم اس قانون سے قبل وزیراعظم عمران خان خود بھی 10 کروڑ سے زائد کے قیمتی تحائف صرف 20 فیصد سے کم قیمت پر خرید چکے تھے۔
الیکشن کمیشن اور توشہ خانہ کیس
عمران خان پر توشہ خانہ کیس کی نوعیت تھوڑی الگ ہے، عمران خان نے توشہ خانہ سے تحائف لیے، اور بیچ دیے، لیکن جو رقم عمران خان نے تحائف بیچ کر حاصل کی اور الیکشن کمیشن کو تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
عمران خان نے تحفے بیچنے اور رقم حاصل کرنے کی تصدیق تو کی اس معاملے پر الیکشن کمیشن کو آگاہ بھی کیا لیکن گوشواروں کی تفصیلات میں شامل نہیں کیا گیا، جس پر الیکشن کمیشن نے عدالت میں شکایت دائر کی کہ عمران خان نے تفصیلات جمع نہیں کرائیں۔
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2018 سے 2022 کے دوران اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں بیرون ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف کم قیمت پر حاصل کیے اور پھر ان تحائف کو 6 لاکھ 35 ہزار ڈالر میں فروخت کیا۔
عمران خان پہلے وزیر اعظم جن پر توشہ خانہ کیس بنا
اگست 2022 میں الیکشن کمیشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایم این ایز کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا، ریفرنس میں کہا گیاکہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔
ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ اسکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔
مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کی طرف سے جمع کروائے گئے اور سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس میں اثاثے چھپانے پر عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی ہے۔
دوسری طرف عمران خان کے وکلا کے مطابق انہوں نے توشہ خانہ تحائف سے حاصل ہونے والی رقم اپنے بینک اکاؤنٹس میں ظاہر کر رکھی ہے۔
الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’الیکشن کمیشن عدالت نہیں بلکہ کمیشن ہے، جب تک ہائی کورٹ کی نگرانی نہ ہو تو کوئی ادارہ عدالت نہیں بن جاتا۔‘
الیکشن کمیشن خود کو عدالت قرار نہیں دے سکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ 10 سال پرانی چیز اٹھا کر سوال کر دیا جائے، یہ ایک سیاسی کیس ہے۔
توشہ خانہ اور اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کی پہلی سماعت جمعرات 18 اگست کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نہیں آئے جبکہ ان کے معاون بیرسٹر گوہر کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 21 اکتوبر 2022 کو کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے آئین کے آرٹیکل 63 (1) کے تحت توشہ خانہ کے تحائف اور اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی کی۔
اس کے علاوہ سیشن عدالت میں ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کرمنل پروسیڈنگ شروع کرنے کی استدعا کی گئی۔
10 مئی 2023 کو ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں غلط معلومات فراہم کرنے پر عمران خان پر فرد جرم عائد کی تاہم 4 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیشن کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کو سننے اور 7 روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔
4 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیشن کورٹ کا توشہ خانہ فوجداری کیس سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے جج کو ہدایت کی کہ درخواست گزار کو سن کو دوبارہ کیس کا فیصلہ کیا جائے اور پھر 5 اگست کو سیشن کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو تین سال کی قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔
عمران خان کو ڈی سیٹ کر دیا گیا تھا
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس پرعمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا۔ جمع کرائے گئے جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے۔ ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنکس، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے 21 اکتوبر2022 کو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ نااہلی ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دے دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے جان بوجھ کر الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کی ہے۔ عمران خان کرپٹ پریکسٹس کے مرتکب ہوئے ہیں، وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کے بعد فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی 22 نومبر کو شروع ہوئی تھی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے فوجداری کارروائی کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے عمران خان کو9 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔ عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے تھے۔
جج ظفر اقبال کو اچانک کیوں ہٹا دیا گیا؟
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں ہوئی تھی لیکن کچھ ہی سماعتوں کے بعد عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس سننے والے جج ظفر اقبال کا اچانک تبادلہ کر دیا گیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کا جج ظفر اقبال کی جگہ تبادلہ کیا گیا جبکہ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کا تبادلہ سیشن ایسٹ سے سیشن ویسٹ کر دیا گیا تھا۔
سینئر تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ اعتراض عائد کیا تھا کہ جج ظفر اقبال شدید دباؤ میں تھے، جس کی وجہ سے انکو تبدیل کیا گیا۔
پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کو کیس سمجھنے میں کیا غلطی ہوئی؟
پاکستان تحریک انصاف کی لیگل ٹیم سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ کیس کی نوعیت کو سمجھنے میں تاخیر کر دی، توشہ خانہ کیس اثاثہ جات کے حوالے سے تھا لیکن پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم ٹیکس ریٹرنز کی تفصیلات جمع کراتی رہی۔ اس حوالے سے بھی چیئرمین عمران خان کو نقصان اٹھانا پڑا اور توشہ خانہ کیس ان کے خلاف مزید مضبوط ہو گیا۔
سیشن کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ پر عدم اعتماد
عمران خان اور انکی لیگل ٹیم سیشن کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے نا امید دکھائی دیے، جس پر عمران خان متعدد بار چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور سیشن جج ہمایوں دلاور پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔