پاناما کا ہنگامہ، مطالبہ صرف ایک تھا ’ایکسٹینشن‘

اتوار 6 اگست 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان سال 2014ء سے سیاسی بحران سے دوچار چلا آتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس کی ابتدا اس دھرنے سے ہوئی جب عمران خان اور ان کے سیاسی کزن علامہ طاہر القادری کو وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کا موقع فراہم کیا گیا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ واقعہ اس کے 2 برس بعد رونما ہوا جب پانامہ پیپرز کا انکشاف ہوا اور اس کے بعد حالات بدلتے چلے گئے۔

مجھے وہ شب یاد آتی ہے جب یہ خبر عام ہوئی کہ دونوں سیاسی کزن آب پارہ اور کشمیر ہائی وے سے اُٹھ کر ڈی چوک پر براجمان ہونے جا رہے ہیں۔

صدر مملکت ممنون حسین کی سیاسی آنکھ، کان اور کسی قدر ترجمان ہونے کے ناتے فطری طور پر مجھے دل چسپی ہوئی اور میں نے سوچا کہ جا کر دیکھوں تو سہی کہ آنے والے لاؤ لشکر کے رنگ ڈھنگ کیسے ہیں؟

مَیں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکلا اور پیدل اس گیٹ کی طرف روانہ ہوا جو پارلیمنٹ ہاؤس کے پہلو میں ہے۔ اس راستے میں اندھیرا نہیں ہوتا لیکن اونچے آرائشی پودوں اور درختوں کے سایوں میں یہ روشنی کچھ پُراسرار سی ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ الف لیلہ کی کسی کہانی کے کردار کی طرح چلے جا رہے ہیں اور  اچانک آپ کے ساتھ کچھ غیر متوقع بھی ہو سکتا ہے۔

اس روز بھی کچھ ایسا ہی احساس میرے ذہن میں پیدا ہوا۔ کہانی کے کردار کو پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن وہ کہانی ہی کیسی جس میں کردار پلٹ کر نہ دیکھے اور پتھر کا نہ ہو جائے۔

اس روز بھی یہی ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک سایہ میرے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ یہ میرے پڑوسی تھے۔ اس بستی میں پڑوسیوں میں دو فرقے تھے۔ ایک میرے جیسے ہما شما اور دوسرے کروفر والے اور با اختیار۔ یہ 2 ستاروں والے ایک جرنیل تھے۔ مہربان، خوش کلام اور ہر سے خوش دلی کے ساتھ پیش آنے والے۔

مَیں نے ان سے کہا کہ میں تو اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں بے چین ہو کر گھر سے نکلا ہوں لیکن آپ کو کیا پریشانی تھی؟ وہ حسبِ عادت مسکرائے اور بتایا کہ میرا پیٹ(Pet)  کھو گیا ہے، اس کی تلاش میں نکلا تھا، آپ کو دیکھا تو اس طرف چلا آیا۔ درست کہتے ہوں گے۔ بڑے خوبصورت چھوٹے بڑے پپی ان کے گھر سے نکلتے اور واپس جاتے رہتے تھے۔ اتنے خوبصورت کہ پڑوس کے بچے انہیں حسرت سے تکا کرتے اور پیار سے پچکارا  کرتے۔

باتیں شروع ہوئیں تو انہوں نے سوال کیا کہ بھئی یہ کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا کہ جو ہو رہا اسی کے نظارے کو جا رہا ہوں لیکن کچھ آپ بھی کہیے کہ بہت کچھ آپ بھی جانتے ہوں گے۔

میرا سوال سن کر مسکرائے اور کہا کہ میرے اندازے کے مطابق مقصود صرف جھنجھوڑنا تھا لیکن یہ بات تو اب بڑھتی نظر آتی ہے۔

صحافتی تربیت کے مطابق مَیں نے ان کے اندازے کی واضح تصدیق اور تردید کرنے گریز کرتے ہوئے ان کے اندازے کی داد دی اور اس توقع میں خاموش رہا کہ شاید وہ مزید کچھ کہیں لیکن کچھ دیر کے بعد پپی کی یاد ان پر غالب آگئی اور وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے ایک پگڈنڈی کی طرف مڑ گئے۔

یہ عین وہی رات تھی جس کی صبح بیت العدل کی دیواروں پر مسلی ہوئی اور گیلی شلواریں دنیا نے سوکھتی دیکھیں۔ اب مجھے یاد آتا ہے کہ دارالحکومت کی اس مقبوضہ شاہراہ کے کچھ مناظر تو لوگوں کو دیکھنے کو مل گئے تھے لیکن کچھ واقعات ایسے بھی تھے جن کی خبر آج تک شاید کسی کو نہیں۔

ایوان صدر کسی فرد واحد کا مسکن نہیں جیسا ابھی ذکر ہوا، وہاں پوری ایک بستی آباد ہے، جس میں بسنے والوں کو کھانے پکانے کا سامان خریدنے کو گھر سے نکلنا بھی پڑتا ہے اور ہر صبح ان کے بچے صاف ستھری یونیفارم پہن کر اسکول کالج بھی جاتے ہیں۔

ابتدائی دنوں میں جب یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ قابضین محض سیاسی اخلاق سے نہیں، عمومی اخلاق سے بھی عاری ہیں، ڈرائیور صاحبان نے عادت کے مطابق اپنی گاڑیاں اسی گیٹ سے نکالیں لیکن مشکل میں پھنس گئے۔ گاڑیاں کرخت لہجے والے ڈنڈا برداروں کے گھیرے میں آ گئیں اور ڈنڈا برداروں نے یہ لحاظ کیے بغیر کہ سواروں میں چھوٹی چھوٹی اور عنفوان شباب کو پہنچتی ہوئی بچیاں بھی شامل ہیں، بڑی بے شرمی سے شیشے اتروا کر کمر کمر تک گاڑیوں میں گھس کر تلاشی کے بہانے بچوں کو ہراساں کیا۔

کسی نے سوال کیا تھا کہ ایسا کرنے والے عمران خان کے کھلاڑی تھے یا علامہ طاہر القادری کے مذہبی کارکنان۔ میرے ڈرائیور نے بتایا تھا کہ اس حرکت میں ہر دو شریک تھے۔ انسانی سطح پر بداخلاقی کے ایسے واقعات کو جمع کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے پورا ایک دفتر درکار ہے۔

اخلاقی سطح پر اس دھرنے سے جو مسائل پیدا ہوئے، وہ اپنی جگہ لیکن نظام مملکت چلانے والے سیکریٹریٹ اور قوم کی اجتماعی امنگوں کی ترجمان پارلیمان کا نظام اس دوران میں کس انداز سے چلا؟ یہ سوال بھی اکثر پوچھا جاتا ہے۔

سیکریٹریٹ کا معاملہ تو نسبتاً آسان تھا کہ اس طرف مظاہرین کا غلبہ نہیں تھا، اس لیے شاہراہ اقبال یعنی عرف عام میں مارگلہ روڈ سے لوگ اپنے دفاتر میں پہنچ جایا کرتے تھے، لیکن پارلیمنٹ ہاؤس کے داخلی اور خارجی راستے مظاہرین کی گرفت میں تھے۔ اس لیے اکثر یہ ہوتا کہ وزیر اعظم ، وزرا اور دیگر اراکین پارلیمان مختلف راستوں سے ایوان صدر سے ہوتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ پاتے۔

خیر یہ تو ایک انتظامی سا مسئلہ ہے، انسان کہیں پہنچنا چاہے تو وہ کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر ہی لیتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ نظام مملکت اس زمانے میں کیسے چل پایا۔

وزرا اور حکومت سے وابستہ اہم شخصیات کے جو بیانات اس زمانے میں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے قوم تک پہنچے وہ یہ تھے کہ سارا نظام معمول کے مطابق ہے، یہ مٹھی بھر شر پسند ہمارا کچھ بگاڑ سکے ہیں اور نہ بگاڑ سکیں گے۔

ان ہی دنوں  صدر مملکت کا کسی پروگرام کے سلسلے میں گلگت جانا ہوا۔ سی ون تھرٹی میں اتفاق سے میری اور وزیر امور کشمیر کی نشست ساتھ ساتھ تھی۔ یہی سوال میں نے ان سے بھی پوچھ لیا۔ کہنے لگے کہ سارا نظام ہی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ یہ جو حکومت کی طرف سے دعویٰ ہے کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اداسی کے ساتھ مسکرا دیے اور جواب میں کہا کہ اگر یہ بھی نہ کہیں تو پھر اور کیا کہیں؟

دھرنے کے دوران میں کار سرکار میں پیدا ہو جانے والی دشواریاں اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر طرح کے مسائل کے باوجود نظام بہرحال پوری طرح چلتا رہا اور اس میں کوئی رخنہ نہیں پڑنے دیا گیا۔

ریاست کے نظام کو اس قدر مشکلات کے باوجود رواں رکھنے کا کریڈٹ جہاں سیاسی قیادت کو جاتا ہے، وہیں کارِ مملکت کے کل پرزوں کو بھی جاتا ہے جو جان جوکھم ڈال کر ہر صبح اپنے دفاتر پہنچتے اور اپنے کارہائے منصبی انجام دیتے۔

یہ بحران دو حصوں میں تقسیم تھا، پہلا حصہ تو یہی دھرنے والا تھا جسے ختم کرتے ہوئے علامہ طاہر القادری نے کہا تھا کہ اللہ نواز شریف کے ساتھ ہے، انہیں ہٹانا ممکن نہیں۔ بحران کے دوسرے حصے کا آغاز پاناما پیپرز کے انکشاف کے بعد ہوا۔ اس موقع پر عمران خان نے وفاقی دارالحکومت کے گھیراؤ کا اعلان کیا تھا لیکن اس مقصد کے لیے وہ کوئی متاثر کن افرادی قوت جمع نہ کر سکے۔ حکومت نے بھی سختی سے کام لیا اور ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے جتھوں کو شہر میں داخل نہ ہونے دیا۔

یہ لڑائی دو محاذوں پر لڑی گئی تھی۔ ایک محاذ تو وہی عوامی دباؤ والا جو ناکام ہوا۔ دوسرا راستہ عدالتی تھا۔ پاناما پیپرز کو پہلے بنیاد بنا کر سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے فروعی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا لیکن بعد میں ایک جج نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے بیان دیا کہ آپ یوں سڑکوں پر کیوں مارے مارے پھرتے ہو، ہم جو بیٹھے ہیں، ہمارے پاس کیوں نہیں آتے؟

اس کے بعد منظر ہی بدل گیا۔ جے آئی ٹی  بنی پھر وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے نا اہل قرار دے دیا گیا لیکن نااہلی سے پہلے کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے جس سے اندازہ ہوتا کہ تنازع کاسبب کیا تھا اور اسے حل کس طرح کیا جاسکتا تھا۔

وزیر اعظم نواز شریف کا ایک معمول تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے، وہ اپنے معمول کے مطابق مہینے دو ایک بار صدر مملکت سے ملاقات کے لیے ایوان صدر ضرور آتے۔ اس بحران کے دنوں میں بھی ان کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ان ملاقاتوں میں وہ سیاسی اور عالمی صورت حال میں پاکستان کے موقف اور اس کے پیدا ہونے والے امکانات یا چیلنجز سے انہیں آگاہ کرتے۔

صدر ممنون حسین مرحوم و مغفور نے ایک بار مجھے بتایا کہ ایسی ہی ایک ملاقات میں وزیر اعظم نے انہیں بتایا کہ جنرل راحیل شریف نے انہیں پیشکش کی ہے کہ انہیں توسیع دے دی جائے، پاناما کیس ختم ہو جائے گا۔

‘ پھر آپ نے کیا جواب دیا؟’

صدر مملکت نے سوال کیا۔

اس سوال پر نواز شریف نے بڑی گھمبیر سنجیدگی کے ساتھ صدر مملکت کو بتایا:

‘ میں نے صاف انکار کر دیا ہے۔’

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp