پاکستان میں عام انتخابات پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنا کام شروع کردیا ہے۔
دی فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ( فافن) نے پاکستان میں قومی انتخابات کی توقعات کے درمیان ووٹر لسٹوں کی جانچ پڑتال کرکے انتخابات کے لیے کام دوبارہ شروع کیا۔ فافن کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے مجموعی طور پر 6 ہزار مبصرین کو میدان میں اتارے گی۔ یہ تعداد 2018 کی نسبت کم ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اس سرکردہ نیٹ ورک نے ووٹر لسٹوں کی جانچ پڑتال کے ذریعے انتخابی مانیٹرنگ کا کام ایک بار پھر شروع کردیا ہے۔ فافن کے ایک عہدیدار نے معروف عرب اخبار’عرب نیوز’ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں سیاسی ماحول بہت گرما گرم ہیں، ایسے میں اسے اپنے کام کے لیے غیرجانبدار مبصرین کی تلاش میں کافی مشکل کا سامنا ہے۔ لوگ اپنی سیاسی وابستگیوں کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔
فافن سن 2008 سے پاکستان میں کام کررہا ہے۔ اس کا بنیادی کام انتخابات اور قانون سازی کے عمل پر نظر رکھنا اور حکومت، پارلیمان کے دیگر امور کا جائزہ لینا ہے۔
تنظیم ماضی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پارلیمان کو اپنی سفارشات پیش کرچکا ہے، جس میں انتخابی دوڑ کو مزید صاف شفاف بنانے کے لیے اہم قوانین بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
فافن کے ڈائریکٹر پروگرامز مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی فہرستوں کا معیار دیکھنے کے لیے ان کا آڈٹ پہلے ہی کروا چکے ہیں۔ ان کی رپورٹ عام انتخابات کے بعد جاری کی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ تنظیم اگلے مرحلے میں امیدواروں اور ان کی نامزدگی کے عمل کا جائزہ لے گی۔ یہ بھی دیکھے گی کہ کیا تمام جماعتوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹرز تک پہنچنے کے یکساں مواقع مل رہے ہیں۔
فافن آئندہ عام انتخابات کے لیے مجموعی طور پر 6 ہزار مبصرین کو میدان میں اتارے گی۔ یہ تعداد 2018 کی نسبت کم ہے۔
مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا الیکشن ہے جس سے پہلے تقریباً تمام لوگ اپنی سیاسی وابستگی ظاہر کرچکے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا کا شکریہ ورنہ لوگ کہتے کہ وہ غیر جانبدار ہیں۔ تاہم وہ اب سوشل میڈیا پر نادانستہ طور پر کچھ نہ کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو ان کی سیاسی وابستگی کو ظاہر کردیتا ہے۔ ایسے ماحول میں غیر جانبدار تربیت یافتہ انتخابی مبصرین تلاش کرنا بہت مشکل ہورہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود وہ اپنے معیار پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ تھوڑی تعداد کے ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں، تاہم وہ زیادہ بہتر شماریاتی نمونہ تیار کریں گے جو عام انتخابات کے دن استعمال ہوگا۔ تقریباً 100,000 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے اور ان کا ہدف ہے کہ وہ تقریباً 25 فیصد پولنگ اسٹیشنز کا مشاہدہ کریں گے۔
سیاسی کشیدہ ماحول سے متعلق ایک سوال پر فافن کے عہدے دار نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے، لوگ اپنی چوائس کے بارے میں واضح ہیں۔ ہم ایسے لوگوں سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان کے پاس ایک سیاسی چوائس ہے۔اسی انداز میں عوام مزید جمہوری ہوں گے اور معاملات پر ناقدانہ طرزعمل اختیار کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن سے چشم پوشی اختیار کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں قانون سازوں کا آپس میں بات چیت کرنا ضروری ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ سال بلکہ پچھلے ساڑھے 4 برسوں میں مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ سیاست دانوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہی نہیں تھا۔ پچھلی حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہتی تھی اور نئی حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہتی۔
نگران سیٹ اپ کو بااختیار بنانے کے حوالے حالیہ آئینی ترامیم سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مدثر رضوی نے کہا کہ یہ کوئی برا اقدام نہیں ہے۔ تاہم عبوری سیٹ اپ کو ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جن کے طویل المدتی اثرات ہوں۔
علامتی قسم کی حکومت نہیں ہونی چاہیے بلکہ فعال حکومت کی ضرورت ہوتی ہے، ایسی حکومت جو فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔