جب اپوزیشن لیڈر ہی نگران وزیراعظم بن بیٹھے

اتوار 6 اگست 2023
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شہر اقتدار میں ان دنوں وفاقی حکومت کے خاتمے کے بعدمتوقع نگران وزیراعظم کے نام کو لے کر چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹھیک 33 برس قبل آج ہی کے دن  (6 اگست 1990کو)جب صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی شق 58 -2(ب) کا سہارا لیتے ہوئے بے نظیر حکومت کا خاتمہ کر کے انتخابات کا اعلان کیا تو پاکستان کو پہلے نگران وزیراعظم نصیب ہوئے۔ اس حوالے سے ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نگران وزیراعظم کا قرعہ کسی غیر سیاسی فرد نہیں بلکہ قائد حزب اختلاف اور آئی جے آئی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی کے نام نکالا تھا۔

بے نظیر حکومت میں حزب اختلاف کی قیادت کرنے والے غلام مصطفیٰ جتوئی نے پہلے نگران وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد انتخابات کے لیے  اکتوبر 1990 کی اعلان کردہ تاریخ سے قبل احتساب کا اعلا ن کیا تو لوگوں کو ان کے لہجے میں جنرل ضیاء یاد آئے۔ خیر مارشل لاء حکومت کے برعکس اکتوبر کی 24 تاریخ کو انتخابات کرا دئیے گئے اور حسب ضرورت نواز شریف کی  پاکستان مسلم لیگ معمولی ووٹوں کے فرق سے بے نظیر کی قیادت میں بننے والے اتحاد پر 50 نشتوں کی بازی لے گئی۔ ویسے یہ وہی انتخابات ہیں جن کے بارے میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ائیر مارشل اصغر خان کی درخواست پر 16 برس بعد 2012 میں فیصلہ سناتے ہوئے انہیں دھاندلی زدہ قرار دیاتھا۔

‘تمام اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا منصوبہ’

6 اگست 1990 کو روزنامہ نوائے وقت میں عارف نظامی کے نام سے شہ سرخی میں لگی خبر میں بتایا گیا کہ صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑکر نئے انتخابات کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔گو کہ اس وقت قائد حزب اختلاف غلام مصطفیٰ جتوئی بھی بے نظیر بھٹو کے خلاف دوسری بار تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر چکے تھے مگر اس پر عمل درآماد کی نوبت ہی پیش نہیں آئی ۔6 اگست کی شام صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیے گئے اختیار 58 -2 (ب) کو استعمال کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو گھر بھیج دیا۔

روزنامہ نوائے وقت، راولپنڈی کے 6 اگست 1990 کو شائع ہونے والے اخبار کا فرنٹ پیج۔ (فوٹو: آرکائیو)

بے نظیر کی پہلی حکومت کا خاتمہ

 یوں تو ضیاء الحق کے طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد انتخابات میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں مگر اسلامی جمہوری اتحاد سمیت کوئی بھی سادہ اکثریت نہیں لے پایا تھا۔آزاد اُمیدواروں کی حمایت اور غلام اسحاق خان کے بطور صدر دوبارہ انتخاب میں حمایت پر بے نظیر بھٹو پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں، مگر ابھی عشق کے لاتعداد امتحانات باقی تھے۔ اول تو وفاق کے بعد ہونے والے صوبائی انتخابات میں سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں  پیپلز پارٹی کے مخالفین نے حکومتیں بنا لیں تھیں جنہوں نے وفاق کی ایک نہیں چلنے دی۔ دوسرا، اقتدار کی تکون میں صدر بااختیار اور اسٹیبلشمنٹ اسی طرح طاقتور تھی ۔

بے نظیر بھٹو کے ایک برس اور آٹھ ماہ پر محیط دور اقتدار میں  جلال آباد پر مجاہدین کے قبضے میں جنرل حمید گل کی ناکامی، سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے کا الزام، نفاذ شریعت، آصف زرداری پر 10 پرسنٹ کا الزام، آپریشن مڈ نائٹ جیکال میں برگیڈیر امتیاز اور میجر عامر کا عسکری قیادت پر الزام وغیرہ جیسے معاملات نے پی پی حکومت کی بنیادیں ہلائیں۔غلام اسحاق خان اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو میں عدلیہ اور فوجی عہدوں میں تقرریوں پر اختلافات بڑھے تو حکومت خاتمے میں آخری پتہ ایم کیو ایم کی علیحدگی اور آپریشن پکا قلعہ ثابت ہوئے۔

جب وزیراعظم ہاؤس کے ٹیلی فون کاٹ دئیے گئے

6 اگست 1990 کی دوپہر اسلام آباد کے ہوٹل ‘ہالی ڈے ان’ کے کمرہ نمبر 555  سے آئی جے آئی سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی اور غلام مصطفیٰ کھر نکل کر ایک ‘تیسرے فرد’ سے ملاقات کو روانہ ہوئے۔ سہ پہر کے وقت  مسلح فوجی دستوں نے شہر کی اہم عمارتوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ مستقبل قریب کے نگران وزیراعظم  غلام مصطفیٰ جتوئی نے ناظم الدین روڈ پر واقع اپنے گھر میں پہلے نگران سیٹ اپ کے چیدہ چیدہ اراکین سے ملاقاتیں کیں جن میں جام صادق اورالہی بخش بھی شامل تھے۔اگلے روز کے اخبارات میں یہ بھی بتایا گیا کہ صدر غلام اسحاق خان کے اسمبلیاں توڑنے کے اقدام سے قبل وزیراعظم ہاؤس اور سیکریٹریٹ کے ٹیلی فون کی لائنیں کاٹ دی گئی تھیں۔نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی حلف اٹھا کراسٹیٹ گیسٹ ہاؤس راولپنڈی منتقل ہو گئے جسے وزیراعظم ہاؤس کا درجہ دے دیا گیا۔ اخبارات  کو بیان جاری کرنے کے بعد نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی نے حزب اختلاف کے رہنماؤں نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمن کو ٹیلی فون کر کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے مشاورت کی۔

پیپلز پارٹی کے بانی اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ کیسے بنے؟

متحدہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے  غلام مصطفیٰ جتوئی نے 1956 میں ون یونٹ کے تحت قائم ہونے والی مغربی پاکستان اسمبلی کے ذریعے پارلیمانی سیاست میں قدم رکھا۔ اُن کے خانوادے سے امام بخش خان جتوئی اس سے قبل بمبئی کی قانون ساز اسمبلی میں سندھ کی نمائندگی باقاعدگی سے کر چکے تھے۔ 1967 میں  پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو 35 سالہ غلام مصطفیٰ جتوئی ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے۔ بھٹو کے دور اقتدار میں انہوں نے سندھ کی وزارت اعلیٰ کا منصب بھی سنبھالا اور بھٹو کی پھانسی کے بعد تحریک بحالی جمہوریت میں گرفتار بھی ہوئے۔ بھٹو کے پی پی قائم کرنے کے تجربے کو ذہن میں رکھ کر انہوں نے نیشنل پیپلز پارٹی بھی قائم کی۔ بعد میں  جونیجو کی مسلم لیگ کے ساتھ 1988 کے انتخابات کے لیے 9 ستاروں کا اتحاد بھی قائم کیا جس کے پرچم تلے سے نواز شریف نے ضیاء الحق کی سیاسی وراثت سنبھالی۔

Ghulam Mustafa Jatoi
غلام مصطفیٰ جتوئی 1973 سے 1977 تک سندھ کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

غلام اسحاق خان کا بیوروکریسی سے کرسی صدارت کا سفر

اپنے پیش روؤں کے راستے پر چلتے ہوئے غلام اسحاق  خان بھی بیوروکریسی کے راستے اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہوئے۔ 1940 میں انڈین سول سروس کے ذریعے بیوروکریسی میں داخل ہوئے اور قیام پاکستان کے وقت انہیں سیکرٹری اطلاعات تعینات کر دیا گیا۔ 20 دسمبر 1971 کو جب سقوط ڈھاکہ کے بعد صدر جنرل یحیی خان نے اقتدار ذولفقار علی بھٹو  کے حوالے کیا تو اس تاریخی دستاویز پر دستخط بھی غلام اسحاق خان نے کرائےتھے۔ بھٹو دور میں گورنر جنرل اسٹیٹ بینک اور سیکرٹری دفاع کے عہدے پر رہنے کے باعث اقتدار میں لانے والی قوتوں کی قربت حاصل ہوئی تو  رہنے کے بعد ضیاء حکومت کے لیے پہلے مشیر اور پھر وزیر خزانہ کے عہدے پر رہ کام کیا۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد جنرل یحیی خان باقی مانندہ پاکستان کا اقتدار ذولفقار علی بھٹو کے حوالے کرتے ہوئے۔ تصویر میں دکھائی دینے والے تیسرے فرد غلام اسحاق خان ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سن 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کے بعد انہیں سینیٹ کا چیئرمین بنا دیا گیا جو صدر کی غیر موجودگی کی صورت میں کرسی صدارت بھی سنبھالتا ہے۔ بہاولپور میں 17 اگست 1988 کو طیارہ حادثے میں ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان نے عبوری صدر کا عہدہ سنبھالا تو جنرل مرزا اسلم بیگ نے انہیں ‘بھرپور تعاون’ کی یقین دہانی کرائی۔ مرزا اسلم بیگ نے بطور نائب ضیاء کی جگہ فوجی سربراہ کا عہدہ سنبھالا تو غلام اسحاق خان مسند صدارت پر براجمان ہوئے۔ اسی عرصے میں سپریم کورٹ نے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا حکم دیا اور یوں نومبر 1988 میں ہونے والے ملکی تاریخ کے چوتھے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔

کرسی صدارت پر ضیاء الحق کے پیشروء غلام اسحاق خان نے تین بار اپنی نگرانی میں انتخابات کرائے اور چوتھے انتخابات سے قبل انہیں کاکڑ فارمولے کے تحت مستعفیٰ ہو جانا پڑا۔ اس تمام عرصے کے دوران صدر غلام اسحاق خان کتنے ‘طاقتور’اور وزیراعظم بےنظیر اور نوازشریف کی سیاسی حکومتیں کس قدر با اختیار تھیں یہ جاننے کے لیے ائیر مارشل اصغر خان کی کتاب  ‘ایک سیاسی سفر کے سنگ میل’ کے چند مضامین کافی ہیں۔

 پاکستان میں نگران وزرائے اعظموں کی تاریخ

1990 میں غلام مصطفیٰ جتوئی کے نگران وزیراعظم بننے کے بعد اب تک 2002 کے انتخابات کے سوا  تمام ہی نگران حکومتوں کے ماتحت ہوئے ہیں۔1993 میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے بلخ شیر مزاری کو نگران وزیراعظم مقرر کیا تاہم سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی تو دوسرے نگران وزیراعظم کو واپس گھر جانا پڑا۔ 1993 کے انتخابات سے قبل معین قریشی نے پاکستان آکر نگران وزیراعظم کا حلف اٹھایا ۔ اسی طرح 1996 میں جب بے نظیر بھٹو کے ‘بلوچ بھائی’ فاروق لغاری نے ان کی حکومت ختم کی تو ملک معراج خالد نگران وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوئے۔ مشرف کے مارشل لاء کے بعد 2002 میں ہونے والے انتخابات میں نگران حکومت کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ البتہ دو ہزار آٹھ، تیرہ اور اٹھارہ کے انتخابات میں میاں محمد سومرو، میر ہزار خان کھوسو اور جسٹس (ر) ناصر الملک نے نگران وزیراعظم کی ذمہ داریاں ادا کیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp