تب میں لگ بھگ 15 برس کا تھا جب جنرل ضیاء الحق نے پہلے نشریاتی خطاب میں سینے پر ہاتھ رکھ کے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ انتخابات آئین کے تحت مقررہ مدت ( 90 دن ) میں کروا کے اقتدار کی امانت منتخب نمائندوں کے سپرد کر کے فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔
یہ جرنیلی جملے محض میرے ہی کانوں میں محفوظ نہیں ہوئے۔ بلکہ سردار موچی کی دوکان پر رکھے ٹرانزسٹر ریڈیو کے اردگرد بیٹھے اور کھڑے کم ازکم 9 دیگر لوگوں نے بھی سنے۔ ان میں سے اکثر بھٹو کے شیدائی مگر پاک فوج کے بھی پرستار تھے۔
سردار موچی جنرل صاحب کا مختصر سا وعدہ گیر خطاب سن کے جھوم اٹھا ’اوئے جی او جواناں۔ کی مرداں والی گل گیتی اے۔ لئو جی ہن فوج نے الیکشناں تا ذمہ لے لیا اے۔ جس طرح 70 وچ یحیحے نے صاف ستھرے الیکشن کروائے سن۔ ساڈا جنرل ضیا وی ویسے ہی الیکشن کرواؤ گا۔ جیوندا رہوے جنرل صاحب‘۔
وعدے کے مطابق یہ الیکشن 16 اکتوبر 1977 کو ہونے تھے۔ ستمبر میں بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان قتل سازش کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ مگر الیکشن کی مجوزہ تاریخ بدستور 16 اکتوبر رہی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے باقاعدہ تفتیش شروع ہونے سے پہلے بھٹو کی حراست غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ 3 دن بعد مارشل لا آرڈیننس نمبر 12 جاری ہوا جسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس آرڈیننس کے تحت بھٹو کو پھر حراست میں لے لیا گیا مگر انتخابات کی مجوزہ تاریخ 16 اکتوبر ہی رہی۔ بھٹو کی جگہ پارٹی قیادت بیگم نصرت بھٹو نے سنبھال لی۔
27 ستمبر کو سردار موچی دوکان پر اکڑوں بیٹھے بیٹھے جوتا گانٹھتے ہوئے ایک جانب کو لڑھک گیا اور پھر نہ اٹھ سکا۔ اس کے مرنے کے غالباً دوسرے یا تیسرے دن اعلان ہوا کہ پہلے احتساب ہو گا اور پھر انتخاب۔ 16 اکتوبر کے انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئے۔
شکر ہے سردار موچی وعدے اور آئین پر یقین اٹھنے سے پہلے خود اٹھ گیا۔ کرماں والیاں نے شرماں رکھ لئیاں۔
آج سردار موچی کو مرے 46 برس ہو گئے۔ آئین کی عمر 50 برس ہو گئی۔ مگر اپنی حرمت کی خیرات مانگتے مانگتے اس کے چہرے پر سردار موچی سے دوگنی جھریاں پڑ گئی ہیں۔ البتہ سردار جوتے میں اس فن کاری سے گانٹھ لگاتا تھا کہ چمڑے کا اضافی ٹکڑا بھی جوتے کی شان بڑھا دیتا تھا۔ آئین میں بھی اب تک بیسیوں توپے لگے ہیں۔ مگر وہ صفائی کسی گانٹھ میں نہیں جو سردار موچی کے ہاتھ میں تھی۔
دیکھا جائے تو آئین کے ساتھ پہلی بار کھلواڑ نے ہر آنے والے کا جھاکا کھول دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسے جس طرح تختہ مشق بنایا گیا۔ اس کے سبب آئین کی حالت گھر کے اس بزرگ جیسی ہو گئی ہے کہ جو کونے میں بیٹھا کھانس کھانس کے اپنی موجودی کا دن رات احساس دلاتا رہتا ہے۔ بچے اور بڑے آتے جاتے سلام کرتے ہیں۔ مگر نہ تو کوئی گھڑی دو گھڑی اس کے پاس بیٹھتا ہے اور نہ ہی اس کے کسی مشورے پر کان دھرتا ہے۔ مگر بابا پھر بھی دعائیں دیتا رہتا ہے۔
آپ چاہیں تو اپنی تشفی کے لیے آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق اور ہر ادارے کے طے شدہ دائرے اور ذمہ داریوں کا حوالہ دیتے رہیں۔ مگر لکھے ہوئے حرف کی اگر اتنی ہی حرمت ہوتی تو آج پاکستانی عدالتوں میں 18 لاکھ کے لگ بھگ مقدمات زیرِ التوا نہ ہوتے۔
جن ریاستوں کو آئین سے زیادہ آئینی حروف میں پوشیدہ روح عزیز ہوتی ہے وہاں غیر تحریری آئین بھی مسلسل رہنمائی فراہم کرتا رہتا ہے۔ مگر جہاں نیت کی پاکیزگی اور کھوٹ کی نہ ختم ہونے والی بحث برقرار ہو وہاں حروف بھی موم کی ناک بن کے قوتِ نافذہ کھو دیتے ہیں۔ اور پھر طاقت ہی آئین اور اس کی تشریح کرتی بھی ہے اور منواتی بھی ہے۔
جہاں مجھ سے لے کے اعلیٰ ترین عہدے دار تک سب کی خواہش ہو کہ جتنی طاقت ایک مٹھی میں بھر سکے اتنی ہی کم ہے۔ وہاں سب جانتے ہیں کہ طاقت کی اپنی تہذیب ہوتی ہے۔ اور وہ بھی ایک ایسے سماج میں جہاں مظلوم اور ظالم بھی موقع ملتے ہی ایک دوسرے کی پوشاک پہننے میں زرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ وہاں محض لکھے ہوئے حرف کا حوالہ دینا اور اس کی پامالی پر شور مچاتے رہنا ایک سعی لاحاصل اور اپنا ضمیر مطمئن کرنے کی خود مشقی کے سوا کچھ نہیں۔
آپ دیکھیے کہ آئین میں درج ہر بنیادی حق کے پاؤں میں کسی نہ کسی متضاد قانون یا ضابطے یا غیر تحریری رواج کی زنجیر پڑی ہے۔ کوئی ادارہ اپنے ذمہ لگے آئینی فرائض کی ادائیگی میں ناکامی پر خجالت ظاہر کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ تاویلات در تاویلات در تاویلات کی دھول میں جو جو بھی ریاستی مفاد کی قیمت پر اپنا الو سیدھا کر سکتا ہے۔ کر رہا ہے۔
عجب نظام ہے جہاں اسٹیٹ ایکٹر کو نان اسٹیٹ ایکٹر اور نان اسٹیٹ ایکٹر کو اسٹیٹ ایکٹر کا کردار نبھانے میں کبھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ لچک دار انتظام اور کہاں ملے گا؟
پاکستان سنہ 1947 میں بنا مگر عام آدمی کے ووٹ پر ریاست کا اعتبار قائم ہوتے ہوتے 23 برس لگ گئے۔ سنہ 1977 کے انتخابی نتائج سے سبق حاصل کرتے ہوئے ریاست چلانے والوں نے فیصلہ کر لیا کہ سب کچھ عام آدمی کی رائے پر چھوڑنا خطرناک ہے۔ لہذا آئندہ جو بھی انتخابات ہوں گے ان کے نتائج کی تشریح اور اس تشریح پر عمل درآمد ’صاحب الرائے مقتدر گروہ‘ کی غیر اعلانیہ ذمہ داری ہو گی۔ تاکہ کبھی بھی 1977 کے انتخابات کے بعد جیسی بے لگام حالت جنم نہ لے سکے۔ نیز یہ کہ آئین بھلے کچھ بھی کہتا رہے۔ انفرادی حق انتخاب حتمی تصور نہیں ہوگا بلکہ اسے ایک ایسا احسان یا رعائیت سمجھا جائے جو دیا نہیں بلکہ بخشا جاتا ہے اور واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ مجھ جیسوں کو تو کوئی غم نہیں کہ انتخابات کب ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے۔آپ کے پاس اگر بہت فرصت ہے تو اس بابت سوچ سوچ کے بھلےچندیا سہلاتے رہیے۔
مالک نے بھینس کو خبردار کیا کہ تجھے چور کھول کے لے جا رہے ہیں۔ بھینس نے پلٹ کے جواب دیا میں کیوں پریشان ہوں۔ مجھے تو چارہ ہی ملنا ہے۔