قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں ابھی 5 دن باقی ہیں، تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے 9 اگست کو (کل) اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، موجودہ حکومت کی مدت کے خاتمہ سے قبل ہی نگراں وزیراعظم کا اعلان کیا جانا ہے، تاہم نا تو اپوزیشن کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے لیے کوئی سنجیدہ نام تجویز کیا گیا ہے اور نا ہی حکومت یا اتحادیوں کی جانب سے کوئی نام سامنے آیا ہے۔
وی نیوز نے حکومتی اتحادیوں اور اپوزیشن ذرائع سے استفسار کیا کہ نگراں وزیراعظم کی دوڑ میں اب کون کون شامل ہیں، ذرائع کے مطابق سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کے نام پر بہت سے اتحادیوں کا اتفاق ہے۔ نگراں وزیراعظم کے نام پر آج اتفاق ہونے کا امکان ہے۔
حکومت اور اتحادیوں کے زیر غور نگراں وزیراعظم کے نام
حکومتی اتحادیوں کے درمیان نگراں وزیراعظم کے نام پر 2 ہفتے قبل مشاورت کا آغاز ہوا تاہم ابھی تک کوئی ایسے نام زیر غور نہیں آئے کہ جن کو نگراں وزیراعظم کے لیے نامزد کیا جائے۔
نگراں وزیراعظم کے لیے مسلم لیگ ن کے زیر غور نام
مسلم لیگ ن نگراں وزیراعظم کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ناموں پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ بھی حفیظ شیخ کا نام مشاورت میں شامل ہونے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام اب بھی زیر غور ہے، احسن اقبال ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اب بھی اسحاق ڈار نگراں وزیراعظم کے اہل ہیں۔ اس کے علاوہ سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اور سینیئر صحافی نجم سیٹھی کا نام بھی زیر غور ہے۔
پیپلزپارٹی کے زیر غور نام
پیپلز پارٹی نے گزشتہ ہفتے سے اعلان کر رکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے پارٹی رہنما یوسف رضا گیلانی، نوید قمر اور خورشید شاہ نگراں وزیراعظم کا نام تجویز کریں گے، تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے، ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کسی سیاسی رہنما کے بطور نگراں وزیراعظم تقرری کے خلاف ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق آصف زرداری کے قریبی ساتھی اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کا نام زیر غور ہے۔
حکومتی اتحادیوں کے زیر غور نگراں وزیراعظم
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے وزیراعظم ہاؤس میں شہباز شریف سے ملاقات کے دوران نگراں وزیراعظم کے لیے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا نام تجویز کیا ہے، جبکہ ذرائع کے مطابق جمیعت علمائے اسلام بطور نگراں وزیراعظم اپنے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے نام پر غور کر رہی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے لیے زیر غور نام
نگراں وزیراعظم کی تقرری کے لیے 3 نام اپوزیشن جبکہ 3 نام حکومت نے تجویز کرنا ہیں، 6 ناموں میں سے ایک نام کو وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض مشاورت کے بعد فائنل کریں گے۔
نگراں وزیراعظم کے نام تجویز کرنے کے لیے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے چیمبر میں اپوزیشن جماعتوں کا مشاورتی اجلاس 2 اگست کو منعقد ہوا تھا تاہم اس بیٹھک میں کوئی سنجیدہ نام سامنے نہیں آیا تھا، جس کے بعد 4 اگست کو دوبارہ طلب کیا گیا مشاورتی اجلاس منعقد ہی نہ ہو سکا جبکہ گزشتہ روز 7 اگست کو بھی اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں مشاورتی اجلاس نہ ہو سکا، گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اپنے چیمبر بھی نہ آئے۔
نگراں وزیراعظم کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رہنما ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پارٹی سربراہ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی کا نام پیش کیا تھا، جبکہ جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا اکبر چترالی نے بھی پارٹی سربراہ سراج الحق کا نام پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پاکستان میں صادق اور امین واحد سیاستدان سراج الحق ہیں، اس لیے سراج الحق کو ہی نگراں وزیراعظم بنانا چاہیے۔
جی ڈی اے اور جماعت اسلامی کے ارکان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راجہ ریاض نے سنجیدگی سے نگراں وزیراعظم کے ناموں پر مشاورت نہیں کی، اس لیے ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ شہباز شریف کے تجویز کیے گئے کسی بھی ایک نام پر اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اتفاق کر لیں گے اور اس طرح نگراں وزیراعظم کا تقرر ہو جائے گا۔
تجزیہ کاروں کی آرا میں نگراں وزیراعظم کون ہو گا؟
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور استفسار کیا کہ نگراں وزیراعظم کی دوڑ میں کون کون شامل ہے، اس پر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کے باعث سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا نام بھی نگراں وزیراعظم کے لیے زیر غور ہے، اس کے علاوہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے عبداللہ حسین ہارون کے نام بھی بطور نگراں وزیراعظم زیر غور ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نگراں وزیراعظم کے لیے جو بھی نام زیر غور ہیں ان میں سے بیشتر نام مفروضوں پر مبنی ہیں، درحقیقت زیر غور ناموں کے حوالے سے کچھ حتمی نہیں کہا جا سکتا، تاہم آج نگراں وزیراعظم کا نام فائنل ہو جانے کا قوی امکان ہے۔
حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے اب نگراں وزیراعظم کو مزید بااختیار بنا دیا ہے، نگراں وزیراعظم کو اب ملکی معاشی صورتحال کے تناظر میں روزمرہ کی بنیاد پر آئی ایم ایف پروگرام اور دیگر ناگزیر معاملات دیکھنے کا اختیار ہوگا۔
نگراں حکومت کوئی نیا معاہدہ تو نہیں کر سکے گی لیکن اس کو دو اور سہ فریقی معاہدوں کا اختیار ہوگا۔ اس کے علاوہ جاری منصوبوں پر اداروں سے بات چیت کا اختیار ہوگا۔ اس لیے اب نگراں وزیراعظم کی تقرری اہمیت اختیار کر گئی ہے۔