پاکستان میں بچوں کے ساتھ تشدد اور بد فعلی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنا عام ہو چکا ہے اور پھر ان بچوں کو معاشی ، جسمانی اور جنسی استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے گھروں میں ہونے والے ایسے پُر تشدد واقعات منظرِ عام پر بھی آ جاتے ہیں۔
حال ہی میں کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کا واقعہ بھی سامنے آیا۔ جس پر سیاسی و سماجی رہنماؤں سمیت تمام مکاتب فکر کی جانب سے رضوانہ کے حق میں آواز اٹھائی گئی اور ملزمان کو سزا دے کر انصاف کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
سول جج کی اہلیہ کے ہاتھوں گھریلو ملازمہ رضوانہ کو انصاف دلانے کے لیے اداکارہ ماہرہ خان نے بھی سوشل میڈیا پر ویڈیو پییغام جاری کیا۔
ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ رضوانہ جیسے واقعات پڑھے لکھے اور طاقتور گھرانوں میں ہوتے ہیں، بچوں پر ظلم کرنے والے با اثر لوگ جانتے ہیں کہ انہیں آسانی سے ضمانت مل جائے گی۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر نادیہ جمیل نے اداکارہ ماہرہ خان کے رضوانہ کے حق میں شیئر کیے گئے ویڈیو پیغام پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
“When there are cases like Rizwana, there MUST BE ACCOUNTABILITY!”
Says @TheMahiraKhan
Mahira speaks from the heart about the struggles of parents struggling below the poverty line.
Instead of exploiting their children we can instead offer them a better life, an education!… pic.twitter.com/17uB1LidlB— Nadia Jamil (@NJLahori) August 7, 2023
اداکارہ ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ خدا کے لیے ان بچوں اور ملک کے مستقبل کے لیے یہ بات سمجھیں اور ایسے واقعات کو روکیں۔ میرا یہ پیغام ان ماں باپ کے لیے نہیں ہے جو مجبوری کی وجہ سے اپنے بچوں کو کام پر بھیجتے ہیں۔ بلکہ با حیثیت اور پڑھے لکھے طبقے کے لیے ہے جو کم عمر بچوں کو کام پر رکھ کر ان سے جبری مشقت کراتے ہیں۔ ان لوگوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا احتساب نہیں ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی ماں باپ یہ نہیں چاہے گا کہ جس عمر میں اس کے بچے کو پڑھنا لکھنا اور کھیلنا چاہیے وہ اس سے کام کروائے۔
اداکارہ نے ارباب اختیار سے درخواست کی کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس سے کوئی بھی بچوں کے ساتھ نا انصافی نہ کر سکے، یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ رضوانہ کیس سمیت دیگر تمام کیسز میں بھی ملزمان کا احتساب کرتے ہوئے کڑی سزا دی جائے۔
سماجی رابطے کی سائیٹ ’ایکس‘ پر اداکارہ ماہرہ خان کی ویڈیو پر صارفین نے بھی رضوانہ کے لیے آواز اٹھائی اور کہا کہ سب کو رضوانہ اور دیگر ایسے بچے جو اس ظلم کا شکار ہیں ان کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔
روزینہ نامی صارف کا کہنا تھا کہ تعلیم اورغربت کے خاتمے اور بچوں کو بد سلوکی سے بچانے کے لیے اداکارہ ماہرہ خان کا پیغام اہم ہے، انہوں نے مزید کہا کہ رضوانہ کو انصاف دلوانے کے لیے آواز اٹھائیں اور چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کے خاتمے کا مطالبہ کریں۔
Your call for education and poverty alleviation is crucial to protect children from neglect and abuse. Let’s raise our voice for #Justice_ForRizwana and demand an end to child domestic labor. https://t.co/9WSQlu6px1
— Rozina (@R0zinakhan) August 7, 2023
ایک صارف نے ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اداکارہ ماہرہ خان کی بات تو ٹھیک ہے مگر پاکستان میں تعلیم بہت مہنگی ہے، اسی لیے غریب کم معاوضے پر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کو مزدوری سے ہٹا کر صرف گھر بٹھانے سے کیا حاصل ہو گا؟ ان کی تعلیم اور علاج کا خرچ بھی اٹھایا جائے تاکہ یہی بچے بڑے ہو کر ملک کے لیے بھی کچھ کر سکیں۔
بات تو صیح ہے پر بچوں کو لیبر سے ہٹا کر گھر بٹھا کے بھی کیا ملے گا؟ انکی تعلیم علاج کا خرچہ بھی اٹھایا جائے تاکہ بڑے ہو کر اپنے گھر کے ساتھ ملک کے لئے بھی قابل بن سکیں۔تعلیم مہنگی ہے اس لئے غریب کا ہر بچہ لیبر ہے اور بھی بہت کم معاوضے اور بہت تشدد جان لیوا کام کرنے پر مجبور ہے
— Worth Of Truth (@WorthOfTruth1) August 8, 2023
اویس نامی صارف نے اداکارہ ماہرہ خان سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ وہ والدین جو خاندانی منصوبہ بندی پر توجہ نہیں دیتے وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ایسے والدین بچوں کو کام پر بھیج کر ایڈوانس اجرت وصول کرتے ہیں اور بچوں کو ان شکاریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
@TheMahiraKhan
A slight disagreement, parents, who doesn't give heed 2 family planning, in addition to their limited/meagre income resources r equally responsible 4 this crime. They, in most of the cases collect advance wage 4 a year, leaving the child to mercy of these predators— Owais Amir Ali (@OwaisOwais117) August 8, 2023
ایک صارف نے رضوانہ کے والدین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق بچی کے والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے اسے جبری مشقت کے لیے نوکری پر رکھوایا۔
رضوانہ تشدد کیس میں قانون کے مطابق بچی کے والدین برابر کے ملزم بنتے ہیں جنہوں نے بچی کو جبری مشقت کیلئے ملازمت پر رکھوایا لیکن پولیس اور میڈیا اس طرف جان بوجھ کر حقائق چھپا رہے ہیں
— Adnan (@adnanlatif6000) August 8, 2023
واضح رہے کہ گھریلو ملازمین پر جسمانی تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے،2017 میں 10 برس کی طیبہ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 2019 میں 16 برس کی گھریلو ملازمہ مالکان کے ہاتھوں تشدد کے نتیجے میں قتل ہو گئی۔ 2020 میں ملازمہ 8 سالہ زہرہ پر تشدد کیا گیا اور وہ معصوم جان کی بازی ہار گئی تھی۔