مس یونیورس کی تاج پوشی کے ایک ہفتے بعد ہی جنسی ہراسانی کی شکایتیں سامنے آئی ہیں۔ مس یونیورس انڈونیشیا کے مقابلے میں شریک کئی امیدواروں نے پولیس کو درج کرائی گئی شکایات میں منتظمین پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔ کہا کہ ’جسم کا معائنہ بند کمرے میں کیا گیا لیکن وہاں مرد بھی موجود تھے‘۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شکایت کرنے والی خواتین کے وکیل نے بتایا کہ 3 اگست کو فائنل سے 2 دن قبل ’باڈی چیکس‘ کے نام پر اور تصاویر بنانے کے لیے مقابلے میں شریک لڑکیوں سے کہا گيا کہ وہ اپنی ٹاپ اتاریں۔
دارالحکومت جکارتہ میں پولیس نے کہا کہ شکایات کو ’مزید تفتیش‘ کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ انڈونیشیا کے قانون کے تحت جنسی بدسلوکی کی سزا 15 سال تک قید ہے۔
مقابلے میں شریک 3 امیدواروں کی نمائندگی کرنے والی وکیل میلیسا اینگرینی نے شکایت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت سی دوسرے شکایت کنندگان بھی سامنے آئیں گی۔ پہلے مرحلے میں 6 امیدواروں نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔
میلیسا اینگرینی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’منتظمین نے امیدواروں کو بتایا تھا کہ جسم کے معائنے کا مقصد ’ان کے جسم پر کسی بھی نشان یا ٹیٹو کا معائنہ کرنا تھا۔‘ انڈونیشیا کی معروف شخصیت پوپی کیپیلا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مس یونیورس انڈونیشیا آرگنائزیشن ان الزامات کی تحقیقات کرے گی۔ گلوبل مس یونیورس آرگنائزیشن نے بھی کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اور وہ جنسی بدسلوکی کے الزامات کو ’بہت سنجیدگی سے‘ لیتی ہے۔
مقابلے میں شریک کچھ شکایت کنندگان نے سوموار (7اگست) کی شام ایک پریس کانفرنس میں منتظمین کی جانب سے جنسی ہراسانی پر بات کی لیکن مقامی ٹیلی ویژن نے ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے نشریات کے دوران ان کے چہروں کو دھندلا کر دیا تھا۔
خواتین میں سے ایک نے کہا تھا کہ ’ایک عورت کے طور پر میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی اور اس نے مجھے ذہنی طور پر متاثر کیا۔ مجھے زیادہ سوچنے کی وجہ سے سونے میں پریشانی ہوئی ہے۔‘ انہوں کہا کہ اگرچہ جسم کا معائنہ ایک بند کمرے میں کیا گیا تھا لیکن وہاں کچھ مرد بھی موجود تھے، دروازہ بھی مکمل طور پر بند نہیں کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے باہر کے لوگ بھی یہ دیکھ سکتے تھے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔
انڈونیشیا میں مقابلہ حسن میں شرکت کی اجازت ہے لیکن منتظمین محتاط رہتے ہیں کہ وہ قدامت پسند معاشرے کے پس منظر میں لوگوں کو ناراض نہ کریں۔ 2013 میں مس ورلڈ کے مقابلے کے منتظمین نے جب مقابلے کا فائنل مرحلہ اس مسلم ملک میں منعقد کیا تھا تو انہوں نے ’بکنی راؤنڈ‘ منسوخ کر دیا تھا۔
سابق مس انڈونیشیا ماریہ ہرفنتی نے 2015 میں مس ورلڈ کے مقابلوں میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جسم کا معائنہ معمول کی بات ہے لیکن مقابلے میں شامل خواتین کو عام طور پر برہنہ ہونے کو نہیں کہا جاتا، منتظمین اکثر مقابلہ کرنے والوں سے ان کا بی ایم آئی یعنی باڈی ماس انڈیکس پوچھتے ہیں تاکہ جسمانی تناسب کو چیک کیا جا سکے۔
مس یونیورس مقابلے 73ویں ایڈیشن میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک خاص کر انڈونیشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ میں بہت مقبول ہیں اور یہاں سے آنے والی فاتح، سیلیبریٹی اور سوشل میڈیا انفلوئنسر بن جاتی ہیں۔
اس کی موجودہ مالک این جکراجوتاتپ ہیں جو تھائی لینڈ کی ٹرانس جینڈر اور بڑی میڈیا مالک ہیں۔ انہوں نے شادی شدہ خواتین، ٹرانس جینڈر خواتین اور تنہا ماؤں کو مقابلہ میں شریک ہونے کی اجازت دے کر برانڈ کو مزید جامع بنانے کی کوشش کی ہے۔