وفاق میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان کے سمدھی اور خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی کی کرسی بھی خطرے میں پڑ گئی اور ساتھ ہی اندورنی سطح پر گورنر اور نگران کابینہ میں شامل سیاسی اور متنازع وزرا کو ہٹانے پر کام شروع ہے۔
گورنر کو ہٹانے کی خبروں کے بعد نئی بحث شروع ہو گئی کہ صوبے کا نیا گورنر کون ہوگا جو سب کے لیے قابل قبول ہو، تاہم گورنر کو ہٹانے کے لیے ابھی تک وفاق کی جانب سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نہیں چاہ رہے کہ ان کے سمدھی غلام علی کو ہٹایا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق میں نگران حکومت کے ساتھ خیبرپختونخوا میں کابینہ سے سیاسی وابستگی والے وزراء کو ہٹا کر نئی غیر جانبدار شخصیت کو شامل کیا جائے گا جو مبینہ طور پرغلام علی یا ان کی جماعت کی ایما پر کابینہ میں شامل کیے گئے تھے۔
گورنر غلام علی متنازع ہو گئے ہیں
حالات سے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ گورنرغلام علی سیاسی وابستگی کی وجہ سے متنازع ہو گئے ہیں اور ان کی اپنی اتحادی جماعتیں بھی ان کے خلاف ہیں۔ اے این پی، پی ایم ایل این، پی پی پی گورنر کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ غلام علی کو تبدیل کیا جائے۔
اتحادی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ غلام علی ان کے ہی ورکرز کو فنڈز کا لالچ دے کر اپنی جماعت میں شامل کر رہے ہیں جو گورنر کے ساتھ زیب نہیں دیتا۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ گورنر کو ہٹانے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے، تاہم گورنر غلام علی بھی کوشش میں ہیں کہ ان کو نہ ہٹایا جائے۔ موجودہ حکومت میں غلام علی کو خطرہ نہیں ہے البتہ آخری وقت میں حالات بدل بھی سکتے ہیں جس سے گورنر کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد حاجی غلام علی کو گورنر خیبر پختونخوا بنایا گیا تھا جو مولانا فضل الرحمان کے سمدھی ہیں۔ کاروباری شخصیت اور مولانا کے رشتہ دار کو گورنر بنانے کے فیصلے پر اس وقت پار ٹی کے اندر سے بھی اختلافات کی خبریں آئی تھیں۔
گورنرشپ کے لیے سابق وزیراعلٰی محمود خان کا نام بھی زیر گردش
پشاور میں گزشتہ تین چار دنوں میں کچھ اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ جس میں سے 2 کے نام سامنے بھی آئے ہیں۔ اب تک جو نام آئے ہیں ان میں سابق گورنر اویس غنی اور سابق گورنر انجئیر شوکت اللہ شامل ہیں۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ انجئیر شوکت اللہ کا تعلق باجوڑ سے ہے اور قبائلی اضلاع سے گورنر لانا موجودہ حالات میں اہم بھی ہے۔ تاہم ابھی تک نام کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ مزید ملاقتیں جاری ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ سابق وزیراعلٰی محمود خان بھی گورنر کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں کیونکہ محمود خان کے قریبی ساتھی نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ محمود خان سے اس حوالے سے رابطہ کیا جا چکا ہے۔
محمود خان سیاست سے کنارا کشی چاہتے ہیں
محمود خان کے قریبی ساتھی کا بتانا ہے کہ وہ مزید فعال سیاست نہیں کرنا چاہتے کیونکہ آئندہ انتخابات میں بھی ان کا الیکشن میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن وہ گورنر بننے میں دلچسپی ضروررکھتے ہیں جو مقتدر قوتوں کو بھی منظور ہے۔
نگران وزراء کیوں بے چین ہیں
گزشتہ کچھ دنوں سے نگران وزرا پریشان ہیں اور کیسز بچانے کے لیے سرگرم ہیں۔ باخبر ذرائع نے وی نیوز کو بتایا کہ گورنر سے پہلے ان کے لائے گئے وزرا کو ہٹانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ جن کی جگہ غیر جانبدار لوگ شامل کیے جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نگران وزیراعلٰی اور دو تین وزراء کے علاوہ باقی تمام نگران وزراء کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور آج ہونے والا کابینہ اجلاس اس کی کڑی ہے جس میں ان کو باقاعدہ طور پر آگاہ کیا جائے گا۔
صحافی محمد مہیم کے مطابق آج کا اجلاس آخری ہے اور بیشتروزراء شاید آئندہ اجلاس میں نہیں ہوں گے، آج کا اجلاس انتہائی جلدی میں بلایا گیا ہے، جس سے لگ رہا ہے کہ سیاسی وابستگی والے وزراء مہمان ہیں۔
فہیم کا کہنا ہے کہ موجودہ نگران کابینہ میں 80 فیصد وزراء کی کسی نا کسی طرح سیاسی وابستگی ہے۔
واضح رہے گورنر اور کابینہ میں ممکنہ تبدیلیوں کے حوالے سے موقف کے لیے گورنر اور نگران وزیر اطلاعات کے پی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم کوئی خاطرخواہ جواب موصول نہ ہوسکا۔