اپنے اسٹریٹ آرٹ کی وجہ سے مشرقی لندن کی مشہور برک لین اسٹریٹ ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت ہے لیکن اس مرتبہ اس کا باعث یہاں کی دیواروں پر پیںٹ کیے گئے وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی تعریف میں لکھے گئے وہ سیاسی نعرے ہیں جو چینی زبان میں تحریر کیے گئے ہیں۔
لندن میں برک لین ایک ایسا علاقہ رہا ہے جہاں مختلف تارکین وطن برادریوں کی آمیزش ہے۔ لیکن آج برک لین شاید لندن میں سب سے زیادہ متنوع فنکارانہ اور ثقافتی لذتوں کو ایک ساتھ پرونے کے لیے مشہور ہے، جس میں اسٹریٹ آرٹ، گئے وقتوں کے کپڑوں کی مارکیٹ اور یہاں تک کہ لندن کے بہترین دیسی فوڈ جوائنٹس شامل ہیں۔
آن لائن ویڈیوز میں دیکھاجاسکتا ہے کہ کچھ لوگ راتوں رات سفید پس منظر پر بڑے سرخ چینی حروف کو اسپرے کررہے ہیں۔
’بنیادی سوشلسٹ اقدار‘ جو 12 دو حرفی الفاظ پر مشتمل ہیں، صدر شی جن پنگ کے دور حکومت میں سب سے زیادہ مقبولِ عام سیاسی نعرے ہیں۔ سفید دیوار پر سرخ بلاک کے الفاظ کی شکل میں سیاسی پروپیگنڈہ چینی معاشرے کا ایک جانا پہچانا منظر ہے۔
برک لین میں نمودار ہونیوالے ان چینی زبان میں تحریر ان نعروں نے آن لائن بحث یہ چھیڑی ہے کہ آیا اس نوعیت کا ابلاغ اسٹریٹ آرٹ کے طور پر شمار ہوتا ہے کہ نہیں اور دوسرا یہ کہ اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی پروپیگنڈہ کیسے آپس میں ملتے ہیں۔
چینی زبان میں سیاسی نعروں سے مزین برک لین کی یہ دیوار دیگر مسابقت رکھنے والے بیانیوں کا میدان بھی بن چکی ہے، کیوںکہ شہریوں نے سرعت کے ساتھ چینی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اس میں نئی تحریریں شامل کردی ہیں۔
کچھ نے سامنے ’نہیں‘ کا اضافہ کیا، یا اسپرے سے پینٹ کیے گئے چینی الفاظ کے ساتھ دیگر پیغامات یا تصاویر پوسٹ کیں۔ ایک تصویر میں ’گرافٹی اور فلائی پوسٹنگ‘ کو جرم قرار دیتے ہوئے ہفتہ کو 800 پاؤنڈز کا جرمانہ جاری کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب شہری ناراض تھے کہ ان حالیہ چینی نعروں نے دیوار پر کیے گئے پرانے اور زیادہ آرٹسٹک کاموں کو چھپا دیا ہے، جس میں ایک معروف مگر مرحوم اسٹریٹ آرٹسٹ کو پیش کیا گیا خراج تحسین پر مبنی آرٹ ورک بھی شامل تھا۔
2012 میں صدر شی جن پنگ کے پیشرو ہوجن تاؤ کی طرف سے سب سے پہلے سامنے آنے والے سوشلسٹ نعروں میں خوشحالی، جمہوریت، تہذیب، ہم آہنگی، آزادی، مساوات، انصاف، قانون کی حکمرانی، حب الوطنی، لگن، سالمیت اور دوستی شامل ہیں۔
اگرچہ ان سیاسی نعروں نے منفی تبصروں کو جنم دیا ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ جن لوگوں نے انہیں پینٹ کیا وہ سنجیدہ تھے یا ستم ظریف۔ آرٹسٹ وانگ ہانزینگ کا دعوٰی ہے کہ ان نعروں پر مبنی آرٹ ورک کوئی بہت زیادہ سیاسی معنی نہیں رکھتا۔
’آزادی اور جمہوریت کے نام پر، یہ حالیہ کام مغرب کے ثقافتی مرکز کی نمائندگی کرتا ہے، یہ لندن کی آزادی ہے۔ سوشلزم تعمیر کرتے ہوئے مغرب کی جھوٹی آزادی کو ختم کریں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔۔۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دوسری طرف کیا صورتحال ہے۔‘
آرٹسٹ وانگ ہانزینگ وانگ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ چینی زبان میں تحریر کردہ 24 الفاظ نہ صرف چین بلکہ دنیا کے بھی مشترکہ اہداف ہیں۔ تاہم برک لین کی دیوار کی تصاویر نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر چینی زبان بولنے والوں شہریوں کے درمیان شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔
چین میں موجود بیشتر حکومتی موقف کا دفاع کرنیوالے صارفین کا موقف ہے کہ برک لین کی دیواروں پر جو کچھ کیا گیا ہے وہ آزادی اظہار تھا جس کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ بعض نے اس قسم کی ثقافتی برآمدگی پر فخر کا بھی اظہار کیا ہے۔
لیکن کچھ قوم پرستوں نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا یہ ’ہائی لیول بلیک‘ کی ایک شکل ہے۔ یہ اصطلاح اکثر ریاستی میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین ان لوگوں کی وضاحت کے لیے استعمال کرتے ہیں جو کمیونسٹ پارٹی کی حکومت پر تنقید اور طنز کرنے کے لیے تہہ دار زبان استعمال کرتے ہیں۔
چین سے باہر اس کام پر تنقید کا سیلاب
آرٹسٹ وانگ ہانزینگ کی انسٹاگرام پوسٹ کے تحت سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے تبصروں میں لکھا گیا ہے کہ آزادی اظہار میں رکاوٹ ڈالنا تقریر کی آزادی کا حصہ نہیں ہے۔ ’آپ نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ آپ کے دوسرے لوگوں کے فن کی وحشیانہ تباہی کا جواز پیش نہیں کر سکتے۔‘
ایک اور نفیس مگر اختلافی تبصرہ میں لکھا تھا کہ کیا آپ بیجنگ جا کر جمہوریت اور آزادی لکھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اگر آپ نے ہمت کی تو آپ کا وطن عزیز آپ کو گرفتار کرنے کی ہمت کرے گا۔‘
وانگ ہانزینگ نے اعتراف کیا کہ ردعمل ان کی توقع سے زیادہ شدید تھا۔ اس کے ساتھ بدتمیزی کی گئی ہے اور اس کے والدین کو ہراساں کیا گیا ہے۔ ’زیادہ سے زیادہ لوگ اس موضوع کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور بدنیتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، یہ میرا ارادہ نہیں ہے۔‘