یہ اپریل 2022 کا پہلا ہفتہ تھا اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی اور ووٹنگ سے ان کی ہار یقینی تھی۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق اور پیپلز پارٹی کے سعید غنی جو کہ اپوزیشن کے منحرف ارکان کو ووٹنگ کے وقت ساتھ رکھنے کو یقینی بنانے پر مامور تھے ان سے مختصر گپ شپ ہوئی تو میں نے پوچھا آپ کونسی وزارت لیں گے؟ خواجہ سعد رفیق فوراً بولے یقین کریں ہمیں حکومت لینے کی کوئی خوشی نہیں ہے۔ یہ ایک مجبوری ہے مگر وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف سمیت کوئی بھی زیادہ خوش نہیں ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ حکومت زیادہ چلے گی نہیں اور انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔
خواجہ سعد رفیق کی یہ بات پوری نہ ہو سکی، انتخابات نہیں ہو سکے اور چند ووٹوں سے قائم حکومت لڑکھڑاتی سنبھلتی چلتی چلی گئی حتیٰ کہ اگست کے ماہ میں اپنی آئینی مدت پوری ہونے کا وقت آگیا۔ خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے بن گئے اور پھر میڈیا کو کم ہی دستیاب ہوئے کہ بتاتے کہ اب وہ خوش ہیں یا اداس مگر ایک بات ضرور ہوئی کہ عوام اب اداس ہو گئے ہیں۔
عمران خان اور جنرل فیض کے 10 سالہ منصوبے اور ممکنہ انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے بادل ناخواستہ بنائی گئی حکومت نے یہ مقصد تو پورا کر دیا تاہم اسکی جو قیمت ادا کرنا پڑی وہ شاید انہوں نے اس وقت ان کے گمان سے بھی باہر تھی۔
11 اپریل 2022 کو حکومت سنبھالنے سے اگست 2023 تک یہ تو ضرور ہوا کہ کہ شہباز شریف اور پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کے کیسز ختم ہوتے گئے اور جنرل فیض کا باب مکمل بند ہو گیا۔ جبکہ عمران خان اپنی سیاسی نا پختگی اور غصے کی بدولت ’حقیقی آزادی‘ کی منزل سے دور ہو کر ’حقیقی قید‘ تک پہنچ گئے اور اپنی جماعت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا مگر دوسری طرف بڑھتی مہنگائی اور بگڑتی معیشت کے ہاتھوں حکومتی اتحاد بھی عوام کے غیض و غضب کے نشانے پر آ گیا۔
وی نیوز کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق شہباز دور حکومت میں آٹے کی قیمت میں فی کلو 78 روپے کا اضافہ ہوا، چینی کی قیمت میں 65 روپے دودھ کی قیمت میں 80 روپے لٹر اضافہ ہوا۔ اسی طرح دال چنا کی قیمت میں 100 جبکہ دال مسور کی قیمت میں 120 روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ گھی کی قیمت میں 830 روپے فی باکس (پانچ لیٹر) اضافہ ہوا۔ بڑا گوشت 250 روپے کلو مہنگا ہو گیا۔ پیٹرول 149 روپے فی لیٹر سے 272 روپے فی لیٹر ہو گیا۔
حکومت لاکھ کہتی رہے کہ خان صاحب نے آخری دنوں میں پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کرے ملک کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ اب ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے پیٹرول، بجلی پر ٹیکس لگا کر آئی ایم ایف سے معاہدہ ضروری تھا مگر عام لوگ موجودہ حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
ویسے بھی عمران خان اور ان کی جماعت کے ماہر بیانیہ سازوں کے مقابلے میں حکومت کوئی کامیاب بیانیہ عوام تک پہنچانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ جس کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ 9 مئی کے واقعات کے داغ کے باوجود پی ٹی آئی کا ووٹ بینک قائم ہے اور اسکی مثال پشاور کے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کے نسبتاً کم معروف رہنما کی کامیابی ہے۔
مزید پڑھیں
گویا یہ حکومت اپنے خاتمے کے بعد جب سود وزیاں کا حساب لگانے بیٹھے گی تو سوچے گی ضرور کہ ان 17 ماہ میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ 17 ماہ قبل نواز شریف اور ان کی جماعت ہر ضمنی الیکشن میں کامیاب ہو رہی تھی اور عوامی سطح پر یہ تاثر پختہ تھا کہ نواز شریف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے زیادتی روا رکھی ہے اور ان کے ترقیاتی کاموں، موٹرویز، بجلی گھروں اور میٹرو پراجیکٹس کی دھوم قائم تھی۔
مگر 17 ماہ بعد اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پی ڈی ایم کا ذکر آتے ہی عوام کی اکثریت کے ذہن میں پہلا خیال مہنگائی کا آتا ہے۔ ان 17 ماہ نے ناصرف پی ڈی ایم کی تجربہ کاری کے بیانیے کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ شہباز شریف کے بہترین منتظم ہونے کے خیال کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
پھر یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اداروں کے ساتھ تعلقات بہتر بناتے بناتے اور ان کی ایما پر قانون سازی اور اقدامات کرتے کرتے عوام اور انکے مسائل سے لاتعلق ہو گئی تھی۔ عوام کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ، پیکا قانون اور پیمرا ترمیمی ایکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے حقوق کے لیے کیا قانون سازی کی گئی، پولیس، پٹواری اور کچہری کے نظام میں کیا اصلاحات ہوئیں؟
9 مئی کے بعد عمران خان اور ان کے حامیوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران نواز شریف کا ’ووٹ کو عزت دو‘ بیانیہ بھی بُری طرح متاثر ہوا اور عوامی تاثر بنا کہ شاید پی ڈی ایم جماعتیں سول بالادستی اور عوامی حقوق کی پاسداری جیسے دعوؤں میں ثابت قدم نہیں رہ سکیں۔
تاہم انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان 17 ماہ میں پی ڈی ایم حکومت کی چند کامیابیوں کا ذکر بھی کیا جائے۔ خارجہ محاذ پر وزیر اعظم شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور سرپرستی میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری مسلسل مصروف نظر آئے۔
خارجہ محاذ پر موجودہ حکومت کی چند بڑی کامیابیاں دیکھی جائیں تو ان میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا، آئی ایم ایف سے معاہدہ، سعودی عرب، چین ، ایران ، متحدہ عرب امارات اور امریکا سے تعلقات میں بہتری اور ان سے تعاون کا حصول شامل ہیں۔
اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں شہباز حکومت نے فوج کے ساتھ مل کر ملک میں سرمایہ کاری کونسل بنائی جس کا مقصد پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ون ونٖڈو کے تحت سہولتیں دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اس حوالے سے زراعت، آئی ٹی اور معدنیات کے شعبے میں جدت اور سرمایہ کاری کی کوششیں واقعی قابل تحسین ہیں اور میرے خیال میں اگر یہ عزائم کامیاب ہو گئے اور پاکستان اگر صرف اپنی زراعت سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو گیا تو ہمیں دیگر ممالک سے ہر سال بھیک مانگنے سے نجات مل سکتی ہے اور ہماری برآمدات سے ہی اتنے ڈالر آ جائیں گے کہ ہم خود کفالت کی طرف جا سکیں۔
بہرحال 17 ماہ حکومت کے بعد شہباز شریف اور اتحادی اب تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ اب یہ آنے والا مؤرخ بتائے گا کہ حکومت لینے اور 17 ماہ برقرار رکھنے کا ان کا یہ فیصلہ درست تھا یا غلط؟ یاد رکھیں تاریخ نہ کسی سے ڈرتی ہے اور نہ کسی کو معاف کرتی ہے۔