وائس چانسلر و دیگر حکام کو دھمکیاں، سوات یونیورسٹی کا طالبعلم گرفتار

بدھ 9 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سوات پولیس نے سوات یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے طالب علم کو یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر حکام کو مبینہ طور دھمکی دینے اور ویڈیو بنانے پر یونیورسٹی انتظامیہ کی شکایت پر گرفتار کر لیا۔ جس کے خلاف ان کے ساتھی طلبا سراپا احتجاج بن گئے اور الزام لگایا کہ گرفتار ہونے والے طالب علم نے کچھ دن پہلے طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف درخواست دی تھی۔

بدھ کو جواد احمد نامی شعبہ صحافت کے طالب علم کی گرفتاری کے خلاف یونیورسٹی میں احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ احتجاجی طلبا ایڈمنسٹریشن بلاک کے سامنے جمع ہوئے۔ وائس چانسلر اور انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کی اور جواد احمد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں

مظاہرین نے گرفتاری کو انتقامی کارروائی قرار دیا اور کیس واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ مظاہرین سے خطاب میں ایک طالب علم نے کہا کہ جواد بے قصور ہے اور پھنسایا جا رہا ہے۔ ’جواد نے یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا رہا ہے اس کے خلاف درخواست دی تھی۔ جس پر کارروائی کے بجائے اسی کے خلاف کیس بنا دیا گیا‘۔

انہوں نے وائس چانسلر اور یونیورسٹی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور کہا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے وہ خاموش ہونے والے نہیں ہیں۔

ایف آئی آر میں کیا لکھا ہے؟

سوات کے تھانہ چار باغ پولیس اسٹیشن میں جواد احمد کے خلاف مقدمہ درج ہے۔ جس کے مطابق جواد نے وی سی اور ایک افسر کو دھمکیاں دیں۔ اور پیچھا کرکے ویڈیو بنائی ہے۔

پولیس کے مطابق ایف آئی آر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے شکایت پر درج کی گئی جس میں جواد احمد کو نامزد کیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کو مراسلہ بھی ارسال کیا تھا جس میں سوشل میڈیا پر وائس چانسلر اور دیگر حکام کے خلاف دھمکی آمیز ویڈیو اپ لوڈ کرنے کا بھی ذکر تھا۔ مراسلے میں طالبعلم کے خلاف کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔

جبکہ ایک اور درخواست تھانے کو دی گئی جس کے مطابق طالب علم جواد احمد نے 4 اگست کو وائس چانسلر کی گاڑی کا پیچھا کیا اور ویڈیو بھی بنا رہا تھا۔ جبکہ وائس چانسلر کے پی ایس کے موبائل پر وی سی کے لیے دھمکی آمیز فون بھی آیا تھا۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پولیس نے جواد احمد کو گرفتار کر لیا۔

طالبات کو ہراساں کرنے پر وائس چانسلر کو درخواست

محمد جواد نے کچھ عرصہ پہلے وائس چانسلر کو درخواست دی تھی جس میں انہوں نے یونیورسٹی کے دفاتر میں طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ وی نیوز کے پاس درخواست کی کاپی دستیاب ہے۔ جس میں انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا بلکہ لکھا کہ ان کو معلوم ہوا ہے کہ دفاتر میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں جس سے یونیورسٹی میں بے چینی کی صورت حال ہے۔ درخواست میں ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے پر زور دیا گیا تھا۔

درخواست میں محمد جواد نے ہراساں کرنے والوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں دیا۔ تاہم روک تھام کے لیے تجاویز ضرور دی ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے دفاتر اور خاص پوائنٹس پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کی تجویز دی اور ساتھ ہی دروازوں میں شیشے لگانے پر بھی زور دیا ہے۔

یونیورسٹی کے افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ درخواست موصول ہوئی ہے۔ لیکن اس میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ درخواست میں ملوث اسٹاف یا متاثرہ طالبات کے بارے میں بھی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی، انتظامیہ کی ہراسمنٹ کے معاملے پر کڑی نظر ہے، اگر کوئی ملوث ہوا تو سخت کارروائی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے طلبا مل کر انتظامیہ کے حکام کو بلیک میل اور دھمکیاں دے رہے ہیں تاہم یہ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp