کے ٹو کے روایتی قلی، روایت اور جدیدیت کے دوراہے پر

جمعہ 11 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آسمان کو خنجر مارتے پہاڑوں کے نیچے پاکستانی پورٹرز یعنی ایک نوعیت کے قلیوں کا ایک کارواں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سے قربت کے متلاشی مہم جوؤں کے لیے زندہ مرغیوں اور لان فرنیچر سمیت دیگر سامان اٹھائے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی جانب رواں دواں ہے۔

ایڈونچر سے بھرپور کے ٹو بیس کیمپ کا یہ 12 روزہ دورہ پلاسٹک کے جوتے پہنے ان قلیوں کے لیے تقریباً 2 لاکھ 70 ہزار وزنی قدموں پر مشتمل بامعاوضہ ملازمت ہے۔ پاکستان کی سسکتی ہوئی معیشت ان قلیوں کو اس خطرے میں اترنے پر مجبور کردیتی ہے، جہاں انعام و اکرام کا کوئی گزر نہیں ہے۔

جنگلی ماحول سڑکوں کی ترقی کے ساتھ سکڑتا جا رہا ہے، اس تبدیلی سے محفوظ راستے تو حاصل ہورہے ہیں لیکن کام کم ہے۔ پہاڑ ان کی روحوں کو تو سرشار کرتے ہیں لیکن ان کے جسم ان بلندیوں اور ناہموار راستوں پر بوجھ اٹھائے عذاب جھیلتے ہیں۔

پہلی مرتبہ کے ٹو سر کرنے کے 7 دہائیوں کے بعد اتنی بلندیوں تک مہم جوئی کرنے والوں کے ہمراہ سامان اپنے کندھوں پر ڈھو کر لیجانے والے ان مزدوروں کی مشکل زندگی ایک دوراہے پر ہے۔ کے ٹو بیس کیمپ تک کے ٹور میں گروپ کے لیے انڈوں کے کریٹ اٹھانے والے 28 سالہ یٰسین ملک کے باپ دادا یہی کام کرتے رہے ہیں۔

’اپنے والد کی طرح اس نوعیت کے بامشقت کام کی اب میری باری ہے۔ لیکن میں نہیں چاہوں گا کہ یہ روایتی کام میرے بچے بھی کریں۔ میں یقیناً اپنی زندگی کے اختتام تک یہ بوچھ ڈھوتا رہوں گا لیکن میں اپنے بچوں کو یہ وزن نہیں اٹھانے دوں گا۔‘

پاکستان کے شمال مشرقی علاقے گلگت بلتستان کے ایک گاؤں اسکولی سے شروع ہونیوالے اس مہم جوئی سے بھرپور سفر کے لیے ٹور آپریٹرز 2 سے 7 ہزار ڈالرز تک فیس کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس گاؤں سے آگے گھڑگھڑاتی جیپیں نہیں جاسکتیں لہذا یہاں سے ان سامان ڈھونے والے مزدوروں کی بامشقت ملازمت کا آغاز ہوتا ہے۔

اسکردو کے یہ مقامی مزدور یعنی پورٹرز، مہم جو حضرات کا سامان، خیمے اور غذائی اشیاء کے کنٹینرز اٹھا کر موسم گرما کے 4 ماہ کے دوران ایک ٹور کے صرف 30 سے 40 ہزار روپے ہی کما پاتے ہیں، جو اس ہائیکنگ ٹراؤزر کی قیمت کے برابر ہے جو اس نوعیت کی مہم جوئی کا انتظام کرنیوالی کمپنی اپنے صارفین کو بیش اس سفر میں پہننے کی سفارش کرتے ہیں۔

پچھلے ایک سال کے دوران اس معمولی اجرت پر کام کرنیوالے ان مزدوروں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی ہے، کیونکہ جولائی میں افراط زر 28 فیصد تک پہنچ چکا تھا تاہم دیوالیہ پن کے خطرے سے دوچار پاکستان آئی ایم ایف کی مداخلت سے ملنے والے معمولی ریلیف کی بدولت تھوڑی بہتر معاشی پوزیشن پرآچکا ہے۔

42 سالہ سخاوت علی کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کی بامشقت ملازمت سے انہیں اپنی گھریلو ضروریات کے لیے ادائیگی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے تاہم ان کے پاس یہاں آنے اور محنت کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp