حال ہی میں رونما ہونے والے ایک واقعہ کی بازگشت نے کافی عرصہ تک ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ یہ قصہ پچھلے دنوں نا صرف پاکستانی بلکہ بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی ہر طرف چھایا ہوا تھا۔
میرا اشارہ جیکب آباد سے تعلق رکھنے والی سیما حیدر کی جانب ہے۔ سیما بھارت کے دارالحکومت دلّی سے لگ بھگ 70 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک نئے ابھرتے ہوئے شہر نائیڈو کے باسی سچن کی محبت میں ایسی گرفتار ہوئی کہ اپنے 4 بچوں سمیت نیپال کے راستے سچن سے جا ملی۔
کوئی اس کو محبت کی جیت سے تعبیر کر رہا تھا تو کوئی بددیانتی گردانتا رہا۔ جہاں پاکستان اور انڈیا کے بااثر محکمے اور افراد اسے ’را‘ یا ’آئی ایس آئی‘ کا ایجنٹ بنانے پر تلے تھے تو وہیں کسی کو اندیشہ تھا کہ یہ سب انڈین فلم انڈسٹری میں اپنے بھاگ جگانے کی ایک دلیرانہ کوشش ہے۔
خیر معاملہ جو بھی ہو یہاں میرا موضوع ہے تو یہی لیکن اس سارے قصے میں کرداروں کو زرا ادل بدل کر دیکھتے ہیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والی سیما اور حیدر دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن دونوں کے گھر والے شادی کے مخالف تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں نے اپنے اپنے گھروں سے راہِ فرار اختیار کی اور کراچی پہنچ کر شادی کر کے یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
سیما جو بھی جمع پونجی اپنے ساتھ لائی تھی اس رقم سے اس نے نسبتاً ایک سستی آبادی میں گھر کرایہ پر حاصل کیا اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
مزید پڑھیں
سیما کماتی رہی اور حیدر گھر سنبھالتا۔ یکے بعد دیگرے 4 بچوں کی پیدائش ہوئی۔ حیدر اپنے بچوں کی پرورش بھی کرتا رہا لیکن وقت کے ساتھ مہنگائی کے منہ زور طوفان نے جینا محال کردیا تھا۔
دونوں میاں بیوی سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کس طرح زندگی کی گاڑی کو آگے کھینچا جائے۔
آخر کار پاکستان کی معاشی بدحالی کے پیش نظر طے پایا کہ سیما اس ملک میں رہتے ہوئے تو اپنے گھر کے حالات سنوار نہیں سکتی نا ہی بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی جاسکتی ہے تو کیوں نا سعودی عرب جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔
یہ سوچ کر سیما نے گھر کے لیے حسب ضرورت گھریلو اشیا اور راشن بھروایا۔ شوہر کو ایک اسمارٹ فون خرید کر دیا تاکہ رابطہ میں دقت نہ ہو۔ اور سیما اپنے شوہر اور بچوں کو آسائش بھری زندگی دینے کے سپنے لیے سعودی عرب سدھار گئی۔ وہاں کی جھلسا دینے گرمی میں دن اور رات ایک کرنے لگی اور وقت پر گھر میں پیسے بھیجنے شروع کر دیے۔
سیما کی سعودی عرب کی کمائی سے آہستہ آہستہ گھر کے حالات میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ وہی چیزیں جن کا حصول چند مہینے قبل تک ناممکن تھا اب حیدر اور بچوں کی دسترس میں آنے لگی تھیں۔ سیما کو سب کچھ ٹھیک ہوتے ہوئے بھی سب ٹھیک نہیں محسوس ہو رہا تھا۔ کیونکہ کچھ عرصے سے حیدر کے اطوار سیما کو مختلف دکھائی دے رہے تھے۔
سیما چھٹیوں پر بھی جب کراچی آئی تو حیدر کا رویہ پہلے جیسا نہ تھا اور اس کا زیادہ وقت فون پر ’پب جی‘ کھیلتے گزرتا تھا۔ سیما نے حجت کرنا مناسب نا سمجھا اور چھٹیاں ختم ہوتے ہی واپسی کی راہ لی۔
13 مئی کی شام جب سیما نے حیدر کو واٹس اپ پر حسب عادت خیریت پوچھنے کو ایک دو پیغام بھیجے لیکن جواب ندارد۔
سوچا کہ مصروف ہوگا۔ رات سونے سے قبل پھر میسیج بھیجے لیکن صرف ایک ہی ’ ٹک‘ سے سیما نے اندازہ لگایا کہ حیدر آن لائن نہیں ہے۔
دو چار دن بنا کسی رابطے کے گزرنے پر سیما کو تشویش لاحق ہوئی اور اس نے اپنے مالک مکان کو فون کر کے حیدر اور بچوں کی خیریت جاننی چاہی تو خبر ملی کہ حیدر تو 4 دن قبل بچوں کے ہمراہ ٹیکسی میں کہیں جا چکا ہے۔ مالک مکان نے بتایا کہ 4 پانچ بیگ بھی ساتھ تھے تو ہم سمجھے کہ وہ جیکب آباد جارہا ہوگا۔ سیما نے فوراً دوسرا فون جیکب آباد میں سسرال میں کیا تو معلوم ہوا کہ حیدر اور بچے تو سال بھر سے گاؤں آئے ہی نہیں۔
سیما مہینہ بھر سعودی عرب میں تشویش میں مبتلا رہی کہ نا جانے بچوں اور حیدر کا کیا بنا۔ لیکن چھٹیاں نہ ملنے کے سبب فوری پاکستان آنا ممکن نہ ہوا۔
4 جولائی کی صبح حیدر کی ایک انڈین لڑکی کے ساتھ تصاویر ہر چینل کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ ساری کہانی چند ہی دنوں میں گھر گھر کا موضوع گفتگو بن چکی تھی۔
بقول حیدر کے ٹی وی پر دیے گئے انٹرویو کے کہ ’سیما کے سعودی عرب جانے کے بعد میری پب جی پر اپنے سے کم عمر انڈین لڑکی سے دوستی ہوئی اور رفتہ رفتہ یہ دوستی محبت میں تبدیل ہوگئی۔ جو رقم سیما نے کما کر بھیجی تھی اور جو کچھ گھر میں قیمتی اشیا تھیں حیدر نے انہیں بیچ کر نیپال کے ٹکٹ لیے اور بچوں سمیت نیپال پہنچ گیا جہاں وہ لڑکی اس کا سواگت کرنے موجود تھی۔
حیدر نے وہیں ہندو مذہب اختیار کر کے اس لڑکی سے بیاہ رچایا اور اس کے ساتھ ہی اس کے گاؤں نو پورہ آگیا۔
میں جانتی ہوں کہ سب کو یہ کہانی ازبر ہے۔ لیکن سیما حیدر کے حوالے سے یہ پوری کہانی دوسرے پیرائے میں دہرانے کا مقصد صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا اب بھی ہم حیدر کے اس طرح کے طرز عمل کو ’محبت زندہ باد‘ یا محبت کی جیت سے تشبیہ دیں گے؟
بلکل بھی نہیں! بلکہ حیدر کو جی کھول کر گالیاں بھی دیں گے اور خوب تبرے بھی بھیجیں گے۔
خاص طور سے حقوق نسواں کی علمبردار ہونے کے ناطے میں بھی حیدر پر شدید تنقید کروں گی۔
لیکن چونکہ اصل میں یہ سب ایک عورت نے کیا ہے تو کیا یہ مناسب ہے کہ میں اسے آئیڈیلائز کروں؟ یہاں میرا جواب نفی میں ہوگا۔
حقوق نسواں کی حامی یا علمبردار ہونے کے قطعی یہ معنی نہیں کہ عورت مرد سے نفرت کرتی ہے یا بلاجواز مرد کو گالی دینا اپنا فریضہ سمجھتی ہے۔
فیمنیزم سے مراد عورت کو اسی دنیا، اسی سماج میں اپنے مساوی حقوق حاصل کرنا ہے۔
یہ سب لکھنے کا مقصد کسی بھی انسان کے جذبات کی توہین کرنا نہیں ہے۔ کسی سے کسی بھی عمر میں محبت ہوجانا، کسی بھی وجہ سے شادی کو ختم کرنا یا دوسری شادی کرنا قطعی کوئی جرم نہیں، نا عورت کے لیے نا ہی مرد کے لیے۔ لیکن کیا اتنا بڑا فیصلہ بنا بتائے کرنا یا چھپ کر بھاگ جانا اور پھر سارا الزام دوسرے فریق کے سر تھوپ دینا کسی بھی حوالے سے جائز مانا جا سکتا ہے؟ میری رائے میں ایسا عمل اخلاقی طور پر بلکل ٹھیک نہیں۔
بے شک ہمارے سماج میں اکثریت مرد حضرات عورت کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن کبھی کچھ معاملے میں مرد بے قصوربھی ہوسکتا ہے۔
سیما اور سچن کی کہانی کیا ہے وہ تو ہم نہیں جانتے لیکن خبر گرم ہے کہ سیما کو فلم کی آفر ہو گئی ہے۔