بچوں میں خودکشی کا بڑھتا رجحان، اصل وجوہات کیا ہیں؟

بدھ 16 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شہباز اسکول میں ہمیشہ بہت اچھے نمبر لاتا اور ہم جماعتوں کے علاوہ اپنے رشتے کے بھائیوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا کرتا اور یہی وجہ تھی کہ اس کے والدین نے میٹرک کے امتحان میں بھی بلند امیدیں وابستہ کرتے ہوئے اسے سب کو پیچھے چھوڑدینے کی ہدایت کردی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی خواہش پوری نہ ہونے کی صورت میں ان کا لخت جگر انہیں ہی ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گا۔ غیرمتوقع طور پر میٹرک رزلٹ میں اس کے نمبر کم آئے اور نتیجتاً کمرے سے اس کی پھندہ لگی لاش برآمد ہوئی۔

اس بات کو 3 برس گزرچکے ہیں لیکن شہباز کے والد محمد فیاض آج بھی اس واقعے کا خود کو قصوروار سمجھتے ہیں اور انہیں اچھی طرح ادراک ہے کہ ان کے ذہین بیٹے کے امتحان میں کچھ نمبر کم لانے سے کوئی آسمان نہیں گرجاتا لیکن اس انجام سے بے خبر ان کا اسے سب سے اچھے مارکس لانے کا کہنا انہیں جتیے جی مارگیا۔

مری سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازم محمد فیاض نے کہا کہ شہباز کے 3 کزنز نے بھی اس کے ساتھ ہی میٹرک کا امتحان دیا تھا اور وہ ہمیشہ ان سے آگے رہتا تھا جس پر انہوں نے اس سے یہ ضرور کہہ دیا تھا کہ بیٹا اس بار بھی سب سے زیادہ نمبر لے کر آنا لیکن ایسا نہیں کہ انہوں نے اس حوالے سے اسے کسی مسقتل دباؤ میں رکھا ہو پھر پتا نہیں اس کے دماغ میں کیا سمایا کہ نمبر کم آنے والی چھوٹی سی بات پر اس نے اپنی جان ہی لے لی۔

اپنےآنسوؤں کو بہ مشکل ضبط کرتے ہوئے محمد فیاض نے کہا کہ کچھ نمبروں کی وجہ سے انہوں نے اپنا وہ ذہین اور محتنی بیٹا کھو دیا جسے ابھی دنیا میں بہت کچھ کرنا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا بیٹا ہمیشہ ہی خاندان میں سب سے اچھے نمبر لے کر آتا تھا جس پر انہیں بہت فخر محسوس ہوتا تھا اور خاندان میں بھی عزت مزید بڑھ جاتی تھی لیکن اس مرتبہ بھی اسی خواہش کے پیش نظر ییٹے کو کی گئی ہدایت انہیں مہنگی پڑگئی۔

دیگر والدین کو خبردار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شہباز کی موت کے بعد سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کبھی بھی اپنے بچوں سے اتنی بلند توقعات بھی وابستہ نہ کی جائیں جو ان پر منفی اثرات ڈال دے اور نہ ہی کبھی اپنے بچے کا دوسرے بچوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے۔

محمد فیاض نے کہا کہ ’گو میں نے شہباز پر کوئی ایسا پریشر نہیں ڈالا تھا لیکن پھر بھی وہ بات یاد کرکے مجھے خود سے نفرت ہونے لگتی ہے اور سوچتا ہوں میں کیسا باپ ہوں جس نے اپنی ایک بات سے اپنے بیٹے کوموت کے منہ میں جھونک دیا‘۔

پاکستان میں طلبا کی جانب سے خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور نہ جامعات بلکہ کالجوں اور پرائمری و سیکنڈری اسکول کے بچوں تک میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے جو والدین سمیت سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ابتر معاشی حالات کے بعد خودکشی کی دوسری بڑی وجہ تعلیمی معاملات میں اونچ نیچ بنتی جا رہی ہے جس کے پیچھے کار فرما عوامل میں والدین کی بچوں سے نہ ختم ہونے والی امیدیں اور کسی حد تک تعلیمی اداروں کی بے توجہی بھی شامل ہے۔

پاکستان میں خودکشی کی شرح

رواں سال میں اب تک خود کشی کے واقعات کی شرح 9.1 فی صد ہے جن میں 65 فی صد مرد اور 35 فی صد خواتین شامل ہیں جب کہ خودکشی کرنے والے کل افراد میں سے 30 فی صد طلبا ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال خودکشی کے 15 ہزار سے زائد کیسز ریکارڈ ہوتے ہیں اور تقریباً 25 فیصد کیسز میں نوعمر افراد شامل ہیں۔

نیشنل لائیبریری آف میڈیسن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یکم جنوری 2019 سے 31 دسمبر 2020 تک پاکستان کے مختلف اخباروں کی رپورٹس کے مطابق 289 بچوں اور 18 سال سے کم عمر کے لڑکے لڑکیوں نے خود کشی کی۔

سائیکولوجیکل ہیلتھ کیئر سینٹر کی کنسلٹنٹ کلنیکل سائیکالوجسٹ سہرش افتخار نے طلبا کے تعلیمی دباؤ کے حوالے سے وی نیوز کو بتایا کہ بچوں میں پڑھائی کے حوالے سے خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے.

سہرش افتخار نے کہا کہ اس کے تدارک کے لیے والدین کا بچوں کے ساتھ ایک اچھا دوستانہ تعلق ہونا بہت ضروری ہے اور خاص طور پر 10 سال کے بعد جب بچوں میں جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو بچوں کے رویوں میں بھی ایک واضح تبدیلی آنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ وہ عمر ہوتی ہے جب والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے تمام تر رویوں و عمر کے ساتھ بدلتی تبدیلی کو قبول کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے میں بجائے بچوں کی کسی بات پر مخالفت کرنے کے انہیں پیار سے سمجھانا چاہیے تاکہ بچے والدین کو دوست کی طرح سمجھنے لگے بصورت دیگر وہ ماں باپ سے کوئی بھی بات شیئر کرنے سے کترائیں گے اور اپنی پریشانیاں اپنے ہی اندر رکھنا شروع کردیں گے۔

دنیا میں خودکشی کی شرح

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سال 2023 کی رپورٹ کے مطابق تقریباً دنیا میں 28 کروڑ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں اور مردوں کی نسبت یہ مسئلہ خواتین میں 50 فی صد زیادہ پایا جاتا ہے. 7 لاکھ سے زیادہ لوگ ہر سال خودکشی کی بنا پر اپنی جان کھو دیتے ہیں جن میں اکثریت 19 سے 25 سال کے درمیان کے افراد کی ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں 75 فی صد وہ افراد شامل ہیں جو غریب ممالک میں رہتے ہیں۔

والدین کی بلند توقعات زہر قاتل بھی ہوسکتی ہیں

سہرش افتخار کا کہنا ہے کہ بسا اوقات والدین کی بچوں کی تعلیم سے وابستہ امیدیں بچوں میں ذہنی دباؤ کا شکار بن جاتی ہیں اور دیکھا یہ جاتا ہے کہ ماں باپ بچوں کے بارے میں ان کے بچپن سے ہی کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر یا انجینیئر بنیں گے جب کہ اس حوالے سے وہ بچوں کے رجحان کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ جب والدین بچپن سے ہی بچوں کے دماغوں میں اپنی خواہشات ڈالنا شروع کر دیتے ہیں تو بچے کی بعض اوقات اس میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے دماغ پر پریشر پڑتا ہے اور پھر جب بچے والدین کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پا رہے ہوتے اور اسکول اور گھر سے پڑھائی وجہ سے ڈانٹ بھی کھا رہے ہوتے ہیں تو پھر ان کے دماغ میں ایسے خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں جو کسی خطرناک نتیجے کا باعث بن سکتے ہیں۔

خود کشی کی سوچ پیدا کرنے والے عوامل؟

خود کشی کے واقعات کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کرئیر کونسلر یوسف الماس کہتے ہیں کہ اس کی پہلی وجہ بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہے جس کی وجہ سے بچے سے ہونے والی کوئی بھی غلطی والدین سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور بچہ چاہ کر بھی اس کی وجہ نہیں بتا پاتا۔

یوسف الماس نے کہا کہ ’دوسری وجہ تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ ہیں جو بچوں میں تفریق پیدا کرتے ہیں حالاں کہ انہیں چاہیے کہ وہ کمزور بچے پر زیادہ دھیان دیں لیکن ہمارے معاشرے میں زیادہ تر اساتذہ ایسے بچے کو سب کے سامنے مارتے پیٹتے ہیں اور اپنے الفاظ سے بھی بچوں کی انا کو ٹھیس پہنچاتے ہیں جس سے وہ بزدل بن جاتے ہیں اور اسی بزدلی کی بنا پر خودکشی کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا ساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچے میں خود اعتمادی پیدا کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسکول اور یونیورسٹی سطح پر کرئیر اور سائکلوجیکل کاؤنسلنگ نہیں ہے جو کہ بچے کے لیے ضروری ہوتی ہے اور اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کا بوجھ زیادہ ہے روزمرہ کی بنیاد پر 8 یا 10 کتابوں کا بوجھ آسان نہیں ہوتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سر گرمیاں ہونا بھی بیحد ضروری ہے تا کہ بچے میں مثبت انرجی آئے۔

اساتذہ کی جانب سے بچوں پر دباؤ

اسلام آباد کے ایک سکینڈری اسکول کے ٹیچر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسکولوں میں بچوں پر پڑھائی کا اس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی بھول ہی جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم میٹرک کی بات کریں تو ماہانہ اور ہفتہ وار ٹیسٹ ہوتے ہیں جو کہ ایک اچھی بات ہے مگر اس سے طلبا پریشانی  کی حالت میں رہتے ہیں اور اچھی کارکردگی نہ ہونے پر کلاس میں ڈانٹ کھاتے رہتے ہیں اور پھر والدین تک ان کی شکایات بھی پہنچائی جاتی ہیں۔

اسکول ٹیجر نے کہا کہ اس کے علاوہ پورا سال ٹیچرز یہ کہہ کر بلیک میل کرتے ہیں کہ آپ کا بڑی کلاس میں داخلہ نہیں ہوگا حتیٰ کہ کہ ان کی ایڈمٹ کارڈ تک روک لیا جاتا ہے اور اکثر تو چھٹی کے بعد بھی طلبا کو تیاری کے لیے روک لیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ  یہ وہ باتیں ہیں جو ایک اسکول کی جانب سے بچے کی دماغی حالت کو متاثر کرتی ہیں اور شکایات کی بنا پر والدین کا سلوک اس سے بھی برا ہوتا ہے جس کے سبب بچے کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کرے تو کیا کرے اور اسے آخری آپشن بس خودکشی ہی نظرآتا ہے۔

ٹیچر کا موڈ اور پسند و ناپسند

اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کی طالبہ حنا احمد نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مجموعی گریڈ پوائنٹ اوسطہ (کمیولیٹیو گریڈ پوائنٹ ایوریج- سی جی پی اے) برقرار رکھنا نہایت مشکل ہے کیوں کہ یہ پروفیسر کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔

انہوں نے اپنے حوالے سے بتایا کہ ان کا پیپر بہت اچھا ہوا تھا اور ان کے مقابلے میں ان کی ایک سہیلی کا اتنا خاص نہیں ہوا تھا اور کووڈ کی وجہ سے آن لائن وائیوا ہوا تھا جس میں ان کے تمام جوابات درست تھے جب کہ ان کی سہیلی نے 2 سوالوں کے جوابات ہی نہیں دیے تھے مگر جب نتیجہ آیا تو اس کا اے پلس گریڈ تھا اور ان کا بی گریڈ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’اس مثال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پروفیسر کی جانب سے ٹھیک سے پیپر نہیں چیک کیے گئے اور جب میں نے پروفیسر سے پوچھا تو وہ ہنسنے لگ گئے اور کہا کہ آپ کو اچھا سی جی پی اے لے کر کیا کرنا ہے ویسے بھی حق حلال کا اتنا ہی ہوتا ہے لیکن ان کی وجہ سے میری پوزیشن نیجے آگئی اب چوں کہ میں نے محنت کی تھی اس لیے مجھے بہت افسوس ہوا‘۔

حنا احمد کے ساتھ رونما ہونے والا واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بعض اوقات پروفسرز کی جانب سے کی گئی کوتاہیاں بھی اس طرح کے نتائج کا سبب بنتی ہیں کیوں کہ اگر ہر سیمسٹر میں کوئی ایک ٹیچر ایسا مل جائے جسے اسٹوڈنٹ کی محنت سے فرق نہ پڑتا ہو تو آگے چل کرایسے متاثرہ طالبعلم کے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

والدین کے لیے بھی کچھ تربیتی کورسز لازمی ہونے چاہیے

 سہرش نے والدین کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر بتایا کہ  والدین کے لیے بھی بچوں کے حوالے سے کچھ تربیتی کورسز کو ضروری قرار دیا جانا چاہیے تاکہ ماں، باپ بچے کے بدلتے رویوں کو سمجھ سکیں اور ملک میں خود کشی کے حوالے سے کوئ سخت قانون بنانا چاہیے تاکہ اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جا سکے.

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘ایک ریسرچ کے مطابق 30 سے 60 ہزار بچے خود کو کٹس لگا کر اپنی زات کو تکلیف دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو جب والدین بچوں میں ایسی کسی چیز کو دیکھیں تو بچے کے لیے دماغی صحت کے سیشنز کا انتخاب کریں. نہ اسے کوئ چوٹ سمجھ کر چھوڑ دیں’۔

اتالیق کا کردار ادا کرنا ہوگا

یوسف الماس کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے اساتذہ کو سنجیدگی سے محنت کرنی ہو گی اور بچوں میں تفریق کو ختم کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اساتذہ کو ایک اتالیق کا کردار ادا کرنا ہوگا جو بچوں کی ذہنی صورتحال کو بھی سمجھے اور انہیں معاشرے کا باعزت شہری بنانے میں اپنا کردار ادا کرے نہ کہ اپنے لفظوں کے نشتر اور چبھتے جملوں کے ذریعے بچے کو خود اس کی نظروں میں ہی گرادے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp