سیاسی جماعتیں کسی بھی جمہوری ملک کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عوام کی امنگوں کی موثر طریقے سے ترجمانی اور قانونی سازی ان سیاسی جماعتوں کی ہی مرہون منت ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں امور حکومت چلانے اور اقدامات اٹھانے میں اس قدر موثرہیں کہ ان کو جمہوریت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ الفاظ ہیں پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک 11 رکنی فل بنچ کے جس نے نہ صرف سیاسی جماعتوں کی افادیت کا اقرار کیا بلکہ ان کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے سیاسی جماعتوں بارے یہ الفاظ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔
سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ کس پیرائے میں کہا اور کون سے مقدمے میں کہا اس کی تفصیلات میں آگے جا کر آپ کے ساتھ شئیر کروں گا۔ اس سے پہلے ہم یہ جائزہ لے لیتے ہیں کیا عمران خان کی نااہلی اور پارٹی قیادت پر پابندی کے بعد واقعی ان کی سیاسی موت واقع ہوچکی ہے یا یہ صرف افسانوی باتیں ہیں کیونکہ وہ عوام میں بہرحال اب بھی پاپولر ہیں۔
توشہ خانہ کیس میں کرپشن کی بنیاد پر 3 سال سزا کے بعد عمران خان کو کیا پارٹی چئیرمین شپ سے ہٹانا آئینی و قانونی طور پر درست ہے؟ اس سوال پر آئینی ماہرین کی متضاد رائے ہیں۔ آئین پاکستان میں پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ آرٹیکل 17(2) کے تحت کسی بھی پارٹی کا ممبر بن سکتا ہے، کسی پارٹی کا عہدیدار بن سکتا ہے اور اپنی پارٹی بھی لانچ کرسکتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر عمران خان کو پارٹی چئیرمین شپ سے ہٹانا غلط ہے تو کیا نواز شریف کو پارٹی کی صدارت سے ہٹانا درست ہے؟
نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے دیا تھا۔ جج ہمایوں دلاور چونکہ ماتحت عدلیہ سے ہیں اس لیے ماتحت عدلیہ سپریم کورٹ/ ہائی کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ہی اپنا فیصلہ دیتی ہے اور اسی فیصلے کی بنیاد پر عمران خان کے پارٹی عہدے پر بھی پابندی لگی۔
سوال یہ اہم نہیں کہ کیا جج ہمایوں دلاور نے درست فیصلہ دیا عمران خان کی پارٹی عہدے پر پابندی کے حوالے سے بلکہ سوال یہ اہم ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جو بنا تو بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے تھا لیکن اس نے ایک شہری کے بنیادی حقوق ہی ختم کردیے کا فیصلہ درست تھا؟
کیا ایک 3 رکنی بنچ یہ فیصلہ دینے کا مجاز تھا بھی کہ نہیں۔ وہ بھی اس صورت میں جب سپریم کورٹ کے فل بنچ نے پہلے سے اس معاملے پر اپنا ایک فیصلہ دیا ہوا ہو۔ بعض آئینی ماہرین کے مطابق جسٹس ثاقب نثار اینڈ کمپنی نے زبردستی نواز شریف کو صادق اور امین نہ ہونے کی بنیاد پر آرٹیکل 17(2) کے تحت پارٹی صدارت سے نااہل کردیا۔
کیا سپریم کورٹ کا 3 رکنی بنچ سپریم کورٹ کے ہی ایک فل بنچ کے فیصلے رد کرسکتا ہے؟ اب بات کرتے ہیں سپریم کورٹ کے اس فل بنچ کی جس نے نہ صرف سیاسی جماعتوں کی افادیت کا اقرار کیا بلکہ ایک لینڈ مارک فیصلے میں ایک شہری کے بنیادی حقوق کو تسلیم کیا۔
20 جون 1988 کو سپریم کورٹ کے 11 رکنی فل بنچ نے سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیٹیشن پر ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا۔ pld 1988 supreme court 416 میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں یہ کہا کہ سیاسی جماعت کے بغیر ملک نہیں چل سکتا اور سیاسی جماعتوں کو بند کرنا غیر آئینی ہے۔
اس 11 رکنی بنچ نے نہ صرف ماضی کے قانونوں کا بتایا کہ ان میں کون کونسی غلطیاں ہیں بلکہ اس میں آئندہ کے لیے بھی کہا کہ یہ بنیاد بنا کر شریعت یا لا ایند آرڈر یا سیکورٹی کا بہانہ بنا کر اگر کوئی ترمیم کرے گا الیکشن ایکٹ میں تو یہ غیر آئینی ہوگا۔ صرف دو گراونڈز sovereignty اور integrity of Pakistan کی بنیاد پر آپ کسی سیاسی پارٹی پر پابندی لگا سکتے ہیں۔
اس فیصلے کی رو سے عمران خان کو پارٹی چئیرمین شپ سے ہٹانے کا فیصلہ بالکل ویسے ہی غلط ہے جس طرح نواز شریف کا فیصلہ غلط تھا۔ پاکستان کے شہری کو آئین کے آرٹیکل 17(2) کے تحت سیاسی وابستگی یا سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے۔
یہ حق صرف اسی صورت سلب ہوسکتا ہے اگر کسی سیاسی جماعتی پر sovereignty and integrity of Pakistan کی خلاف ورزی کی بنیادی پر پابندی لگ جائے۔ اس صورت میں بھی اسکے مرکزی اور صوبائی عہدیداوں پر صرف پانچ سال کے لیے پابندی لگ سکتی ہے۔
اس فیصلے کو جو کہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے فل بنچ نے متفقہ طور پر دیا تھا کیا ایک تین رکنی بنچ رد کرتے ہوئے اس کے بالکل الٹ فیصلہ دے سکتا ہے؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس3 رکنی بنچ کے فیصلے کو کیسے واپس کیا جاسکتا ہے؟ اس پر بھی قانون دانوں اور آئینی ماہرین کی متضاد آرا ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ آئینی ترمیم کے ذریعے اس کو undo کیا جاسکتا ہے یا اس کا دوسرا راستہ ہے کہ عدالت اعظمی بذات خود کسی دوسرے مقدمے میں اس فیصلے کے حوالے سے تشریح کرکے اس معاملے کو نمٹا دے۔
بہرحال جو بھی طریقہ کار ہو عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا اگر وہ اپنے کسی ایسے فیصلے کو undo کردے جو کہ نہ صرف متنازعہ ہو بلکہ پہلے سے موجود ایک فل بنچ کے فیصلے سے contradictory ہو۔ میرے خیال میں جس طرح نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ غلط تھا ویسے ہی عمران خان کو ہٹانا غلط ہے۔ سیاستدانوں کو ہٹانے یا اقتدار میں لانے کا واحد راستہ جمہوری عمل اور انتخابات ہی ہیں۔ اور یہ فیصلہ عوام کو ہی کرنے دیں۔