بھلے دنوں کی بات ہے کہ ضلع بونیر، ریاستِ سوات کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ ریاست جیسے ہی سنہ 1969 میں پاکستان میں مدغم ہوئی، توبعد میں اسے شانگلہ، بونیر اور سوات تین اضلاع کی شکل میں تقسیم کیا گیا۔ اب یہ تینوں اضلاع سیر و سیاحت کے لیے موزوں جگہیں ہیں، گو کہ سوات باقی ماندہ ضلعوں کی نسبت زیادہ ایکسپلور کیا گیا ہے اور اسے قدرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ فطری حسن سے نوازا ہے، مگر ضلع بونیر اور شانگلہ میں بھی سیاحت کے لیے ایک سے ایک بہتر جگہیں موجود ہیں، جہاں نہ صرف ہائیکنگ کی جاسکتی ہے بلکہ ٹریکنگ کے مواقع بھی وافر مقدار میں ہاتھ آسکتے ہیں۔ ضلع بونیر کی ایسی ہی ایک جگہ تاغان ہے، جہاں تین آبشاریں دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔
سفر کا آغاز
ہم چونکہ سوات کے رہائشی ہیں، اس لیے سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے رختِ سفر باندھ کر بونیر کا رُخ کیا۔ یہ سفر سوات کی سرحد پار کرتے ہی دو تین جگہ روڈ کی خستہ حالی کی وجہ سے دو اڑھائی گھنٹے بنتا ہے۔ پورے راستے پر سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ بونیر کی طرف جنگلات کی اچھے طریقے سے رکھوالی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے گوکند تا منیاری، شودرہ پہاڑ درختوں سے بھرے دکھائی دیتے ہیں۔
سنگر ٹاپ
سنگر ٹاپ سوات اور بونیر کے درمیان حدِ فاصل ہے، جہاں سے ایک طرف سوات اور دوسری طرف بونیر کا وسیع علاقہ دیکھا جاسکتا ہے۔ سنگر ٹاپ پر مقامی لوگوں کے نسبتاً اچھے ریسٹورنٹ مل جاتے ہیں جہاں ناشتا کیا جاسکتا ہے۔ وہاں دکانیں بھی موجود ہیں جن سے ہائیک کے لیے بسکٹ، پانی وغیرہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بر گوکند، کوز گوکند اور بیکند
سنگر ٹاپ سے نیچے کوز گوکند، بر گوکند اور بیکند تینوں پیاری جگہیں ہیں۔ ہر دو تین کلومیٹر بعد بہترین پکنک سپاٹ مل جاتے ہیں۔ بیکند میں سڑک کنارے گھنے درختوں کے بیچ چائے کا ایک کھوکھا ہے، جہاں بکری کے دودھ والی تگڑی چائے مل جاتی ہے۔ آگے کا راستہ ایک آدھ جگہ پر کچی سڑک کی شکل میں ملتا ہے، جو ’میٹھے باداموں میں کڑوے کے مصداق‘ موڈ تھوڑی دیر کے لیے خراب کردیتا ہے۔
تاغان شودرہ
جیسے ہی تاغان پہنچ کر گاڑی سے قدم باہر نکالا جاتا ہے، تو چاروں اور فلک بوس پہاڑ اور جنگل نما ماحول کسی الہڑ حسینہ کی طرح بانہیں کھولے ملتا ہے۔ دور سے تاغان کی ’امبریلا واٹر فال‘ آپ کو دکھائی دیتی ہے، مگر صبر۔۔۔وہاں تک پہنچنے کے لیے آپ کو دو اڑھائی گھنٹے کی ہائیکنگ کرنا پڑے گی۔
امبریلا واٹر فال تک رسائی دلانے والے راستے
تاغان کی سب سے بڑی آبشار جسے وہاں کے مقامی نوجوان ’امبریلا واٹر فال‘ کہہ رہے تھے، تک رسائی کے لیے تین مختلف راستے ہیں
پہلا راستہ: یہ راستہ سب سے مشکل مگر سب سے خوب صورت ہے۔ کیوں کہ یہ ندی کنارے کبھی دائیں، تو کبھی بائیں گھنے درختوں کے بیچ نکلتا ہے۔ ندی اپنا پانی تاغان کی تڑواں آبشاروں سے حاصل کرتی ہے۔ اس لیے جب بھی رات کو بارش ہوتی ہے، تو اگلی صبح ہائیک کے لیے جانے والے امبریلا واٹر فال تک پہنچتے پہنچتے گھٹنوں تک بھیگ گئے ہوتے ہیں۔ اس راستے کی دوسری خوبصورتی یہ ہے کہ اس پر چلنے والے تینوں آبشاروں کا نظارہ کرلیتے ہیں۔
دوسرا راستہ: دوسرا راستہ بھی شودرہ گاؤں ہی سے نکلتا ہے۔ ندی پار کرتے ہی ایک راستہ بتدریج سخت ہوتا ہوا پہاڑی کے درمیان نکلتا ہے۔ اوپر سے ندی کا نظارہ کریں، تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ رینگتا سانپ ہو۔ اس راستے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے اختیار کرنے والوں کا درمیانی درجے کی سخت ہائیکنگ سے پالا پڑتا ہے۔ دو تین جگہوں پر تو اچھی خاصی چڑھائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے سانس پھول جاتی ہے اور باقاعدہ بریک لینا پڑتی ہے۔ مذکورہ راستے کا نقصان بس یہی ہے کہ ’امبریلا واٹر فال‘ تک تو بندہ گیلا ہوئے بغیر پہنچ جاتا ہے، مگر پہلے والے راستے میں موجود باقی ماندہ دو خوبصورت آبشاروں کے نظارے سے محروم رہ جاتا ہے
تیسرا راستہ: تیسرا راستہ ایک کچی سڑک کی شکل میں شودرہ گاؤں سے پہلے ایک اور گاؤں منیارئی کے بیچ نکلتا ہے۔ کئی لوگ موٹرسائیکل کے ذریعے یہ راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ موٹرسائیکل اوپر کھڑی کرکے 15 سے 20 منٹ کی آسان سی ہائیک کے بعد آبشار تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس راستے کی واحد دل کشی یہ ہے کہ اس میں کوئی سختی نہیں۔ نقصانات کئی ایک ہیں۔ مثلاً: آدمی ایک اچھی ہائیک سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس طرح اوبڑ کھابڑ راستے، قدرت کے خوب صورت نظارے، پھیپھڑوں کی ورزش، ٹھنڈے میٹھے جھرنوں کا پانی اور باقی ماندہ دو گنگناتی آبشاروں کے نظاروں سے محرومی جیسا بڑا نقصان الگ ہے۔
تڑواں آبشاریں
پہلی آبشار تقریباً ایک گھنٹے کی ہائیک کے بعد دعوتِ نظارہ دیتی ہے۔ اس میں پانی کی مقدار اچھی خاصی ہے جس کی پھوار 10 سے 15 فٹ کی دوری تک محسوس کی جاسکتی ہے۔
دوسری آبشار کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی ہائیک کے بعد سامنے آتی ہے۔ جس کے پانی کی مقدار قدرے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس کی پھوار بھی دور دور تک محسوس ہوتی ہے۔
تیسری آبشار جسے ایک بحث کے دوران میں مقامی نوجوانوں نے ’امبریلا واٹر فال‘ کا نام دیا، سب سے پیاری اور خوب صورت آبشار ہے۔ کافی اونچائی سے گرتا پانی قدرتی طور پر چٹان کے مختلف حصوں سے ٹکرا کر ایک چھتری کی شکل میں پھیل کر نیچے گرتا ہے، جس کی پھوار 20، 25 میٹر (یا شاید اس سے بھی زیادہ) تک محسوس کی جاسکتی ہے۔ سیاحوں کی جیسے ہی آبشار پر نظر پڑتی ہے، تو غیر ارادی طور پر ان کے منہ سے چیخ نکلتی ہے۔ آبشار پر میری اور میرے ساتھ چلنے والے چند طلبہ کی پہلی نظر پڑی، تو سب کی کیفیت ملی جلی تھی۔ بے ساختہ میرے منھ سے “Wow” کا لفظ نکلا اور چند لمحے اسے دیکھتا ہی رہا۔
ہائیک کے لوازمات
ہائیک پر جانے والے اپنے ساتھ جوتوں کا ایکسٹرا جوڑا ضرور لیتے جائیں۔ اگر شوز پلاسٹک کے ہوں، تو نورعلی نور۔
اس کے علاوہ دھوپ کی عینک، ٹوپی، گردن اور چہرہ ڈھانپنے کی خاطر کپڑا، ہائیکنگ سٹک، ہائیکنگ بیگ، بسکٹ، او آر ایس، کھجور اور حسب ضرورت ڈرائی فروٹ بھی ساتھ لیتے جائیں۔
امبریلا واٹر فال کے پاس ہی ایک مقامی شخص نے چائے کا کھوکھا کھول رکھا ہے، جہاں گرما گرم چائے اور پکوڑے مناسب داموں مل جاتے ہیں۔ وہاں اپنی خواہش کے مطابق کھانا بھی تیار کیا جاسکتا ہے، اس جگہ پر لکڑی وافر مقدار میں موجود ہے۔