لاہور میں ’گورنر ہاؤس کے نیچے بنا خفیہ مزار‘

جمعرات 17 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں واقع گورنر ہاؤس مختلف سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مستقل خبروں کا حصہ رہتا ہے مگر بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ گورنر ہاؤس لاہور مبینہ طور پر مغل دربار کے ایک عہدیدار کے مزار پر قائم ہے۔

700 کنال رقبے پر محیط گورنر ہاؤس لاہور کو گورنر پنجاب کی آفیشل رہائش گاہ کا درجہ حاصل ہے۔

شاہراہ قائداعظم گڑھی شاہو میں واقع یہ عمارت 400 برس قدیم بتائی جاتی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے برطانوی لیفٹیننٹ گورنر کی رہائش گاہ کو 1947 کے بعد سے صوبے کے گورنر کی رہائش کا گاہ کا درجہ حاصل ہے۔

گورنر ہاؤس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مزار پر قائم کیا گیا ہے۔ کچھ لوگ اس مقبرے کو مغل شہنشاہ اکبر کے کزن قاسم خان کا قرار دیتے ہیں۔ کچھ دیگر کا دعوی ہے کہ قاسم خاں اکبر بادشاہ کے کزن نہیں بلکہ مغل حکومت کے ایک عہدیدار تھے۔

عمارت کے ڈائننگ روم کے نیچے واقع مزار کے باہر نصب تختی پر درج ہے کہ مورخین کے اختلاف کے باوجود حالیہ تحقیق سے واضح ہے کہ یہ مقبرہ قاسم خاں (محمد قاسم خان) کا ہے۔

قاسم خان کو شہنشاہ ہمایوں سے وابستگی اور اس کے بھائی کے مقابلے شہنشاہ کا ساتھ دینے کے صلہ میں اکبر بادشاہ کی تخت نشینی کے بعد تین ہزاری منصب دیا گیا تھا۔ میں 1577 میں وہ آگرہ کی نظامت پر فائز اور پھر کابل میں بطور صوبیدار تعینات کیے گئے۔ کابل جانے سے قبل اکبر بادشاہ کے لیے 1586 میں کشمیر کو فتح کرنے کا اعزاز بھی قاسم خاں نے حاصل کیا۔

history of lahore governor house
گورنر ہاؤس لاہور کی اولین تعمیر 400 برس قدیم ہے (فائل فوٹو)

سرکاری سطح پر جاری معلومات کے مطابق 1600 میں اس وقت کے بادشاہ اکبر نے اپنے کزن قاسم خان کا مزار یہاں بنوایا جنہیں کابل میں تعیناتی کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔

مورخین سید محمد لطیف اور کنیہا لال دونوں اسے مغبل مقبرہ قرار دیتے ہیں جو شاہجاں کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ البتہ کنیہا لال کے مطابق یہ صوفی بزرگ سید بدرالدین کی قبر ہے جب کہ محمد لطیف کے مطابق یہ قاسم خان کی قبر ہے۔

بعد میں سکھ حکمراں رنجیت سنگھ کے جمعدار کوشل سنگھ نے مقبرے کے اردرگرد اپنی اور سپاہ کی رہائش تعمیر کی۔

مورخین کے مطابق مقبرے کے سامنے کا علاقہ ماضی میں اکھاڑے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

1849 میں پنجاب پر برطانیہ کے قبضہ کے بعد یہ جگہ مبینہ طور پر سیالکوٹ کی حویلی دیوان حاکم رائے کے بدلے 2500 روپے کے عوض ان کی تحویل میں چلی گئی۔ اس تبادلے کو کوشال سنگھ کے بھتیجے تیجا سنگھ کی خواہش قرار دیا گیا تھا۔

1851 سے 1853 کے دوران برطانویوں نے اس مقام کو ازسرنو تعمیر کیا۔ ڈپٹی کمشنر بورنگ وہ پہلا سرکاری نمائندہ تھا جو اس عمارت میں مقیم ہوا۔ بعد میں مک گریگر، ہنری لارنس یہاں مقیم رہے۔

1858 میں لیفٹیننٹ گورنر رابرٹ منٹگمری کے دور میں اس عمارت کو گورنمنٹ ہاؤس لاہور کا نام دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ رہائش گاہ اور اس سے ملحق دفاتر ودیگر شعبے گورنر ہاؤس کے طور پر برقرار رکھے گئے ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی بطور مہمان اور پھر بطور میزبان اس عمارت میں مقیم رہے ہیں۔

مغل عہدیدار سے منسوب مزار کے اوپر انگریزوں کی قائم عمارت طویل عرصہ سے اپنی جگہ موجود ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر اس عمارت میں پہنچنا تو بہت سے افراد کا خواب رہتا ہے لیکن اس کے نیچے آسودہ خاک فرد کے پاس جانے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

گورنر ہاؤس لاہور میں طویل عرصہ سے ملازمت کرتے اللہ دتہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں گورنر ہاؤس کے تہہ خانے میں واقعہ مقبرہ میں بہت کم ہی کوئی آتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp