بلوچستان میں نگراں وزیر اعلی کی تقرری کا معاملہ ایک معمہ بن چکا ہے۔ ایک جانب حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں نگراں وزیر اعلی کی تقرری پر اختلافات ہیں تو وہیں حزب اختلاف کی جماعتیں بھی ایک پیج پر نہیں۔
15 اگست کو بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال گروپ کی جانب سے نگراں وزیرِ اعلی کے لیے میرعلی مردان ڈومکی کا نام فائنل کیا گیا، جس پر بلوچستان کی سب سے بڑی اپوزیشن کی جماعت جمعیت علماء اسلام کو بھی رضا مند کرلیا گیا تھا لیکن وزیراعلی بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے اپنی ہی جماعت کے حمایت یافتہ امیدوار کے نام کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اور یوں نگران وزیر اعلی کی تقرری کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا۔
آئین پاکستان کے مطابق نگران وزیر اعلی ہی تقرری کے لیے حکومت اور حزب اختلاف کو تین تین نام کمیٹی ارکان کے لیے تجویز کرنا ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام نے عبدالواحد صدیقی، یونس زہری اور حاجی نواز کاکڑ کے نام بطور کمیٹی ارکان تجویز کیے ہیں۔ سرپرائز تو تب ملا جب حکومت کی جانب سے نگران وزیر اعلی کی تقرری کے لیے کمیٹی ارکان میں وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنا ہی نام دے دیا۔ تاہم اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے ارکان سے متعلق فہرست آویزاں نہیں کی گئی ہے۔
کیا وزیر اعلی نگراں سیٹ اپ کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی میں اپنا نام تجویز کر سکتے ہیں؟
اس وقت سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ایک ہی سوال گردش کررہا ہے کہ آیا میرعبدالقدوس بزنجو نگراں وزیرِاعلی کی پارلیمانی کمیٹی میں اپنا نام تجویز کر سکتے ہیں کہ نہیں۔ بلوچستان کے سینیئر ماہر قانون راحب بلیدی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر نگران وزیر اعلی کی تقرری کے معاملے پر حکومت اور حزب اختلاف کسی ایک موقف پر متفق نہ ہو پائیں تو یہ معاملہ اسپیکر اسمبلی کی صدرات میں پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ جس میں حکومت اور اپوزیشن کو تین تین نام کمیٹی ممبران کے لیے تجویز کرنا ہوتے ہیں۔
’آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت یہ کہیں واضح نہیں کہ وزیر اعلی بلوچستان نگران وزیر اعلی کی تقرری کے لیے تشکیل دی جانیوالی پارلیمانی کمیٹی میں اپنا نام تجویز نہ کرسکیں۔ اس لحاظ سے میر عبدالقدوس بزنجو نے حکومت کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی میں اپنا نام آئین کے مطابق تجویز کیا ہے۔‘