دنیا کی پہلی باضابطہ سلطنت کی کہانی

جمعہ 18 اگست 2023
author image

ڈاکٹر عثمان علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دریائے دجلہ و فرات آرمینیا کے بلند اور برف پوش پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور مخالف سمتوں میں بہتے ہوئے آخرکار ایک پست اور وسیع میدان میں باہم مل جاتے ہیں۔ اس خطہ زمین کو کسی زمانے میں کلدہ کہا جاتا تھا، زمین کا وہ تنگ حصہ جہاں یہ دونوں دریا برابر بہتے ہیں، میسو پوٹیمیا کہلاتا ہے جسے اہل عرب جزیرہ کہتے ہیں۔ اس سرزمین کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں دنیا کی قدیم ترین سمیری تہذیب نے جنم لیا۔ زمانہ قدیم میں کلدہ ارض سمیر یا اکاد بھی کہلاتا تھا۔

سمیری تہذیب میں لوگوں نے پکی اینٹوں سے مکانات بنانے شروع کر دیئے تھے اور فن تحریر بھی ایجاد کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ تجارت و زراعت میں بھی یہ لوگ بہت ترقی کر چکے تھے۔ اور، اوروک، لارسام، اریدو، لگش، نیپور، سیپار، اگادہ اور بابل ان کے مشہور شہر ہیں جو اب تک دریافت ہو چکے ہیں اور ان کی اعلیٰ تہذیب و تمدن کی گواہی دیتے ہیں۔

مذہبی لحاظ سے ان میں یکجہتی نہیں تھی اور ہر شہر کا الگ خدا تھا، جس کی پرستش کی جاتی تھی۔ معبد کا کاہن ہی سلطنت کا بادشاہ ہوتا تھا اور امور سلطنت انجام دیتا تھا۔ بعض اوقات یہ کاہن بادشاہ اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی خاطر اردگرد کے شہروں پر حملہ کرتے اور قبضہ کر لیتے۔ اگر کوئی بادشاہ اکد کے بڑے حصے پہ قابض ہو جاتا تو خود کو شومیر و اکد کا بادشاہ کہلواتا لیکن یہ سلطنتیں پائیدار نہیں تھیں۔

ابھی تک ان میں کوئی ایسا بادشاہ نہیں گزرا تھا جو تمام اکد کو متحد کر کے مختلف قوموں کو ایک سلطنت میں پرو دیتا۔ ہمسایہ سلطنتوں سے مخاصمت بھی جاری رہتی جن میں سب سے زیادہ چپقلس عیلام سے تھی جو دجلہ کے اس پار کلدہ یا اکد کے مشرقی جانب واقع تھا۔ عیلامیوں کا تعلق سامی نسل کی مخلوط قوموں سے تھا۔

کوئی 12 سو سال تک سمیری الگ الگ شہری ریاستوں میں بٹا رہا۔ کلدیوں کے قدیم بادشاہوں میں سارگون وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے تمام میسوپوٹیمیا کو متحد کیا اورعیلام تک تاخت و تاراج کیا۔ سارگون کا تعلق اکادیوں سے تھا جو شمالی میسوپوٹیمیا سے وارد ہوئے تھے۔ سارگون بادشاہ کے ساتھ ساتھ ایک عظیم فوجی جرنیل بھی تھا جس کی بدولت اس نے اپنے اردگرد کی تمام ریاستوں کو زیر کر لیا۔ اس نے سخت فوجی ترتیب اور نظم قائم کیا۔

دوران جنگ اس کی فوجی ترتیب اس طرح مرتب ہوتی کہ ڈھال بردار فوجی دستے سب سے آگے پناہ گاہ کا کام دیتے جن کے پیچھے نیزہ بردار فوج دشمن کو کچلنے کے لئے مستعد رہتی۔ شہر اوروک پر قبضے کے بعد سارگون نے تمام میسوپوٹیمیا اور سومیر پے قبضہ حاصل کر لیا۔ اپنے قبضے کو استحکام دینے کی خاطر سارگون نے سیاسی حکمت عملیوں کا سہارا لیا اور تمام شہروں کی فصیلوں گروا دیا تاکہ کھلے شہروں کی بدولت متوقع بغاوتوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔

مزید برآں اس نے تمام ان گورنروں کو ہٹا دیا جن کے بارے میں اسے شک تھا کہ وہ بغاوت کر سکتے ہیں۔ تمام شہروں میں اس نے اپنے قابل اعتماد گورنر نامزد کئے۔ ارض سمیر اور کلدہ پہ مکمل قبضے کے بعد سارگون نے ہمسایہ قوموں پر بھی تاخت و تاراج شروع کیا او رعیلام کو مغلوب کر کے خراج دینے پہ مجبو ر کیا۔مزید آگے بڑھ کے اس نے سوریہ یعنی شام اور جزیرہ نما سینا تک کو اپنی سلطنت میں لے لیا۔

سارگون کی تخت نشینی:

سارگون 3 ہزار 8سو قبل مسیح میں اگاوہ میں تخت نشیں ہوا تھا اور کوئی 56 سال تک تخت سلطنت پہ بیٹھا۔ اسی نے پہلی بار یہ اصول بنایا کہ اس کے بعد اس کا بیٹا حکومت کرے گا۔ تمدنی ترقی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کئی عمارتیں تعمیر کروائیں۔ شکستہ معبدوں کی مرمت کروائی۔ علوم و فنون کی طرف بھی کافی توجہ کی۔ شہر اوروک میں ایک عظیم کتب خانہ بنایا جس میں اس زمانے کے مروجہ علوم کا ذخیرہ کیا اور نجوم ، سحر، صرف و نخو وغیرہ کی کتابیں اکٹھا کیں۔ جس قدر پرانی کتب کا ذخیرہ میسر ہو سکا وہ اکٹھا کیا۔ ان کاوشوں کی بدولت شہر اوروک نے اس قدر شہرت حاصل کی کہ بلدۃ الکتب یعنی کتابوں کا شہر کے نام سے یادکیا جاتا تھا ۔

اکادیوں نے گو سمیر کا اپنی سلطنت میں لے لیا لیکن ان کے عظیم الشان تمدن کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ اسے مزید ترقی دی۔ انہوں نے سمیری دیوی دیوتاؤں ہی کو برقرار رکھا جن کے نام پر سارگون حکومت کرتا رہا۔ زراعت میں وہ سمیریوں کے شاگردرہے اور انہی کے طریقوں پر عمل کرتے رہے۔

سارگون کو قدیم تاریخوں میں سارگون اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سارگون کے بچپن کے بارے میں افسانوی قصے مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو نہیں جانتا تھا اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا باپ کون تھا۔ اس کی ماں کے تعلقات کس کے ساتھ تھے کہ اس کا حمل ٹھہر گیا؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کی پیدائش کے بعد اس کی ماں نے اس ڈر سے کہ اس کا چچا اسے مار ڈالے گا، اسے دریائے فرات میں ایک ٹوکری میں ڈال کر بہا دیا اور جسے ایک باغبان اکی نامی نے نکالا اور بعد ازاں اکی نے ہی اس کی پرورش کی۔

سارگون کا پیدائشی نام کیا تھا، اس بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے۔ بہرحال اکی نے سارگون کی پرورش کی اور اسے پروان چڑھایا۔ بڑے ہو کر سارگون نے دربار تک رسائی حاصل کر لی اور جلد ہی بادشاہ کی ساقی گری یا پیالہ بردار کی خدمت پہ مامور ہوا جو اس وقت کے رواج کے مطابق بادشاہ کے بعد بلند ترین منصب تھا۔ اندرونی و بیرونی شورشوں کے دوران سارگون کو ابھرنے کا موقع ملا اور اس نے تخت سلطنت پر قبضہ کر لیا اور جلد ہی تمام میسو پوٹیمیا پر اپنی نظریں گاڑ لیں۔

سمیر و میسوپوٹیمیا پہ فتح حاصل کرنے کے بعد سارگون اعظم نے خود کو مستحکم کرنا شروع کیا اور فرات کے کنارے شہر اکاد کی بنیاد رکھی اور اس شہر کو اس قدر ترقی دی کہ اسے عروس البلاد بنا دیا۔ سارگون کی پالیسیوں کی بدولت آبپاشی کا نظام بہتر ہوا، سڑکوں کی تعمیر ہوئی اور تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ وسیع پیمانے پر علوم و فنون کی ترقی کا آغاز ہوا۔ دنیا میں ڈاک کا پہلا باقاعدہ نظام مرتب ہوا اور اکادین رسم الخط میں لکھی مٹی کی سلیں باقاعدہ مہر کے ساتھ بھیجی جانے لگیں۔

اوزان و پیمائش کے معیار مقرر کئے گئے تا کہ روزمرہ تجارتی نظام کو مستحکم کیا جاسکے اور ساتھ ہی باقاعدہ ٹیکس کا نظام متعارف کروایا گیا۔ تعمیراتی منصوبے شروع کئے گئے اور کل وقتی فوج بنائی گئی جس کی تربیت کا باقاعدہ نظام مرتب کیا گیا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سارگون نے بحیرہ روم تک تاراج کیا اور اس کے بحری جہاز بغرض تجارت ہندوستان تک سفر کرتے تھے۔

فوجی مہمات کے علاوہ سارگون اعظم انتظامی امور میں بھی انتہائی کامیاب حکمران ثابت ہوا اور اس کے بہترین اور قابل بھروسہ لوگ سلطنت کے اعلیٰ عہدوں پہ تعینات رہے۔ اکد کے لوگ اپنی انتظامی صلاحیتوں کے لئے خصوصی شہرت کے حامل ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ 65 سے زیادہ شہروں پر سارگون اعظم کے قابل بھروسہ گورنر اور منتظم انتہائی کامیابی سے حکومت کرتے رہے۔

کوئی 56 سال حکومت کرنے کے بعد سارگون اعظم نے وفات پائی ۔ اپنی وفات کے وقت تک وہ دیوتاؤں کے مرتبہ کا حامل سمجھا جانے لگا تھا۔

سارگون کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ریموش نے تخت سنبھالاجسے ابتداء ہی میں بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے اپنے باپ کی حکمت عملیوں کو برقرار رکھا اور عیلام کے خلاف فوج کشی کر کے بغاوت کو بزور قوت دبا دیا۔ ریموش کے بعد اس کے بھائی منیش توسو نے تخت سنبھالا۔ اس کے بعد اکادیوں کا مشہور بادشاہ نارام سین جو منیش کا بیٹا اور سارگون اعظم کا پوتا تھا، تخت پر بیٹھا۔

اسے بھی ابتدا میں بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا جن کو اس نے بڑی حکمت عملی سے فرو کیااور سلطنت کو اوج کمال پر لے گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے خلیج فارس کے اس پار حتیٰ کے مصر تک فوج کشی کی۔ اس کے دورحکومت میں تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا۔

اکادیوں نے کوئی 180 سال تک سلطنت کی اور زوال کا شکار ہوئے۔ یہ دنیا کی پہلی مربوط سلطنت تھی جس میں مختلف قومیتوں، نسلوں اور زبانوں کے حامل لوگ رہتے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp