پائن کے درختوں کا گھنا جنگل بادلوں میں جھوم رہا تھا اور نیچے پہاڑی چٹانوں سے ٹکراتا پانی آبشار کی صورت میں اس گہرے نیلے رنگ کی جھیل میں گر رہا تھا جس کے چاروں طرف پہاڑ، جنگل، سبزہ اور دلفریب خاموشی تھی۔
میں جھیل کے کنارے کھیلتے بچوں سے ابھی کھیلنے ہی لگا تھا کہ اچانک ایک بڑی سی گاڑی ریستوران کے عقب سے نمودار ہوئی جس سے سیاہ رنگ کے کپڑے اور پی کیپ پہنے بھورے مونچھوں والا درمیانی عمر کا ایک شخص (جو گاڑی میں اکیلا تھا اور خود ڈرائیونگ کر رہا تھا) باہر آیا تو قریب ہی کام میں مصروف انجنیئرز اور سپر وائزرز اس کے اردگرد اکٹھے ہو گئے اور وہ انہیں مختلف ہدایات دینے لگا۔
میں نے ایک شخص سے اس کے بارے دریافت کیا تو بتایا کہ یہ اس پراجیکٹ (پائن سٹی ریزورٹ) کے اونر میجر صدیق ہیں.
مجھے میجر صاحب پر ان کی سادگی سے زیادہ ان کی اپنے کام سے دیوانگی کی حد تک محبت پر حیرت ہونے لگی کیوں کہ وہ اپنے اسٹاف میں سے ایک کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے کہ جھیل پر جھکے اس درخت میں لائٹ لگا لیں تو دوسرے سے کہتے کہ اسپورٹس کلب میں ٹیبل ٹینس اور بلیئرڈ کے مزید ٹیبل لگوا لیں جب کہ تیسرے کو اگلے روز سے سڑک کنارے اور پہاڑوں پر دوبارہ شجر کاری شروع کرنے کا کہتے۔ انجنیئرز سے پانی پر ایک اور چیک ڈیم بنانے کا مشورہ کرتے اور اس پر فوری کام شروع کرنے کا کہتے۔ پھلدار درخت اگانے کے لیے مختلف پہاڑوں اور مقامات کی نشاندہی کرتے تو اگلے ہی لمحے متعلقہ اسٹاف ممبرز کے سامنے گاڑی کے بونٹ پر نقشہ بچھا کر گالف کورس کے بارے ہدایات جاری کرتے۔ کبھی کھڑے کھڑے بلڈرز آرکیٹکٹ ٹھیکیداروں اور کاریگروں سے میٹنگ کرتے اور فوری طور پر فیصلوں کو عملی شکل میں سامنے لانے کا حکم جاری کرتے تو کبھی چڑیا گھر، پارکس اور کلب میں معمولی سی غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے ٹھیک کرنے کی ہدایت دیتے۔
ہم 3 دوست گھنٹہ بھر سے جھیل کے کنارے کرسیوں پر بیٹھے اس شخص کی اپنے کام سے ایک جنوں خیز لگن کا مشاہدہ کرتے اور اس کی محنت، کمٹمنٹ اور وژن پر کبھی ہنستے، کبھی حیران ہوتے اور کبھی داد دیتے۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ اپنی گاڑی کے بونٹ پر بچھائے ہوئے ماسٹر پلان (نقشے) میں منہمک تھے تو میرے دوست (جو ایک مشہور آرکیٹکٹ ہیں) نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ یہ شخص (میجر صدیق ) آرٹسٹ ہے ڈیویلپر نہیں جسے کمانے سے زیادہ فطرت کا حسن دوبالا کرنے کا شوق ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم ان کی طرف چلے گئے اور ان سے پراجیکٹ کے حوالے سے مختلف سوالات پوچھنے اور گپ شپ کرنے لگے۔
لیکن ایک صحافی کی حیثیت سے میں تلخ سوال سے کہاں باز آتا اس لیے پوچھ بیٹھا کہ روڈز اور بلڈنگز بنانے کے لیے کتنے درختوں کا قتل عام کرنا پڑا؟ انہوں نے جھٹ سے جواب دیا کہ 783 درخت !لیکن اس سے پہلے کہ میں ان پر ماحولیاتی مجرم کا الزام لگاتا انہوں نے خود ہی کہا کہ یہ بھی پوچھ لیں کہ ان درختوں کے بدلے لگائے کتنے؟
میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو جواب دیا کہ 11 ہزار سے زائد نئے درخت اپنے خرچے پر نہ صرف لگائے بلکہ محکمہ جنگلات سے تحریری شکل میں داد اور شکریہ بھی وصول کیا۔ ان درختوں میں اخروٹ، سیب اور آڑو کے ڈیڑھ ہزار پودے بھی شامل ہیں جنہیں مختلف پہاڑوں پر نہ صرف اگایا گیا بلکہ ان کی نشوونما کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔
ساتھ ہی بتایا کہ پہاڑی ندی جو بے مقصد ڈھلوان کی طرف بہنے کے ساتھ ساتھ زمین کی کٹاؤ کا سبب بھی بنتی اسے نہ صرف محفوظ بنا کر کٹاؤ کو روکا گیا بلکہ پورے مارگلہ پہاڑی سلسلے کا سب سے بڑا پانی کا ذخیرہ بھی محفوظ کر لیا گیا اور جھیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ثبوت‘ آپ کے سامنے ہے۔
انہوں نے ہمیں پیشکش کی کہ آپ چاہیں تو پورے ریزارٹ کا وزٹ کروادوں؟
سو تھوڑی دیر میں وہ اپنی دیو ہیکل گاڑی کو بلندیوں اور ڈھلوانوں میں دوڑانے اور ایک ایک جگہ کی وضاحت کرنے لگے۔
ہمارے ایک دوست نے پوچھا کہ آپ نے تو بہت ہی کم کنسٹرکشن کیا ہوا ہے اور زیادہ توجہ فطری اور ماحولیاتی حسن پر ہی مرکوز رکھی ہے تو پھر یہ خرچے کہاں سے پورے کرتے ہیں؟
ایک بلند بانگ قہقہہ گونجا اور جواب دیا کہ خرچوں کی مجبوری نہ ہوتی تو خدا کی قسم ایک انچ بھی نہ بیچتا اور اس جنگل میں منگل نہیں بلکہ اس جنگل کو ایک چھوٹی سی جنت بنا کر لوگوں کے حوالے کرتا اور واپس لوٹ جاتا۔
پائن کے درختوں پر اب شام اتر رہی تھی اور ہم اس خوابناک فضا سے نکلنے لگے تھے۔
مڑ کر دیکھا تو میرے دوست کا جملہ یاد آیا کہ یہ شخص آرٹسٹ ہے ڈیویلپر نہیں۔