نیب ترامیم کیخلاف کیس: اگلے مہینے ریٹائر ہورہا ہوں اس مقدمہ کا فیصلہ کرنا ہے، چیف جسٹس

جمعہ 18 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں؟ یہ درخواست تین رکنی بینچ کو سننی چاہیئے یا فل کورٹ کو؟ یہ وہ سوالات تھے جو امروز اس مقدمے کی سماعت کے دوران اٹھائے گئے اور عمران خان کے وکیل خواجہ حارث احمد اور وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان سے کہا گیا کہ ان سوالوں کے جوابات پر عدالت کی معاونت کریں۔

دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ وہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور انہیں ان مقدمات کے فیصلے تحریر کرنے کے لیے وقت چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پہلے اس پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کریں یا اس مقدمے کو فل کورٹ سنے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 3 اور 4 کی موجودگی میں یہ بینچ مقدمہ نہیں سن سکتا اور اس کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے پر میرٹس کے ساتھ قابل سماعت ہونے پر بھی فیصلہ دیں گے۔ 2022 سے یہ کیس سن رہے ہیں۔ حکومتی وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ کی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز کی حمایت پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہر کیس کے اپنے حقائق اور میرٹس ہوتے ہیں ایک کیس میں دی جانے والی رائے صرف اسی کیس کے لیے ہوتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ کیس کوئی الگ کیس ہے جس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔اصول واضح ہے اختلاف رائے انے پر فیصلہ اکثریت کا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک 22 سماعتوں پر درخواست گزار اور 19 سماعتوں پر وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیے ہیں۔

’یہ کیس اتنا لمبا نہیں تھا۔ مخدوم علی خان پہلے ہی کیس کے قابل سماعت ہونے پر اچھے دلائل دے چکے ہیں، اب آپ سماعت سے نکلنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔‘

 

اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کا اختیار ہے کہ میرا موقف تسلیم کریں یا مسترد کریں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیےکہ کیس میں پہلے دن سے پوچھ رہا ہوں کہ کونسے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔ 47 سماعتوں میں اب تک نہیں بتایا گیا کہ کوئی بنیادی حقوق متاثر ہوا ہے کہ نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے ابھی ایک جج صاحب نے اعتراض اٹھایا ہے لیکن اکثریت ججوں کی رائے میں زیادہ وزن ہے اس لیے ہم اس مقدمے کو چلائیں گے۔  سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث احمد کے جونیئر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ صاحب خرابی صحت کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے انہوں نے خواجہ حارث کی جانب سے تحریری جواب جمع کرایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں اس مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے کیونکہ یہ ایک بہت اہم مقدمہ ہے اور اس کی روشنی کی بنیاد پر سماعت کریں گے، تاہم انہوں نے فریقین کے وکلاء سے کہا کہ مقدمہ قابلِ سماعت ہے یا نہیں اور آیا اسے فل کورٹ کو سننا چاہیئے، اس پر تیاری کر کے آئیں اور عدالت کی معاونت کریں۔

مقدمے کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مقدمہ فل کورٹ میں سنے جانے کی تجویز تو دی لیکن انہوں نے سماعت سے معذرت نہیں کی۔

عدالت نے مذکورہ بالا سوالات پر فریقین کے وکلاء سے معاونت طلب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تیاری کر کے آئیں اس مقدمے کا شیڈول بناتے ہیں۔ جب جسٹس منصور علی شاہ نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ ایا نیب ترمیمی ایکٹ کی موجودگی میں موجودہ بینچ کو یہ مقدمہ سننا چاہئے یا نہیں، تو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی چیز ہے بینچ کے خیالات میں تنوع ہے۔

چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو 26 سماعتیں دلائل کے لیے دیں اور اب ہمیں اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے، اگر آپ خواجہ حارث کے نئے جواب پر مزید دلائل دینا چاہتے ہیں تو موقع دینے کو تیار ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم صاحب آپ آئندہ سماعت تک تیاری کرکے جواب دیدیں۔ اس کے بعد عدالت نے مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا عندیہ دیتے ہوئے آئندہ سماعت 28 اگست تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp