رانی پور: تشدد کی ماری فاطمہ درد سے تڑپتی رہتی لیکن ہم اسے پانی تک نہیں دے سکتے تھے، ساتھی ملازمہ

جمعہ 18 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سندھ کے ضلعے خیرپور کے علاقے رانی پور کی ایک حویلی میں کمسن ملازمہ فاطمہ کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کے بعد اس کے ساتھ کام کرنے والی دیگر لڑکیوں کے سوشل میڈیا پر ویڈیو بیانات آنے کا سلسلہ جاری ہے جن میں دلخراش انکشافات ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے جمعرات کو فاطمہ کے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی ثانیہ نے بیان دیا تھا جب کہ جمعے کو ایک اور لڑکی کا ویڈیو پیغام سامنے آگیا ہے جس نے فاطمہ پر ہونے مظالم اور نتیجے میں بچی کی ابتر حالت کا ’آنکھوں دیکھا حال‘ بیان کیا ہے۔

یاد رہے کہ نوشہروفیروزکےرہائشی ندیم علی کی بیٹی کے جسم پرتشدد کے نشانات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل  ہوئی تھیں جس کے بعد الزام عائد کیا گیا تھا کہ پیر اسد شاہ کی حویلی میں کام کرنے والی 10 سالہ فاطمہ مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنائی گئی جس سے اس کی جان چلی گئی۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیو میں ثانیہ کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی پیر کی حویلی میں کام کرتی تھی جب فاطمہ کو مارا پیٹا جاتا تو اسے سخت بخار چڑھ جاتا۔

ثانیہ نے کہا کہ ’تشدد کی وجہ سے ہم فاطمہ کو تڑپتا دیکھتے تھے مگر کچھ کر نہیں پاتے تھے اور نہ ہمیں اتنی اجازت تھی ہم اسے پانی دے سکیں یا ایک دانہ تک اس کے منہ میں ڈال سکیں‘۔

اس کا کہنا تھا کہ اسے خود بھی ایک مرتبہ اتنا پیٹا گیا تھا کہ اس کا چہرہ سوج گیا تھا۔ اس نے کہا کہ ’میں خود بھی وہاں بیمار ہوگئی تھی اور انہی حالات اور خوف کے باعث وہاں سے بھاگ آئی‘۔

واضح رہے کہ پیر کی حویلی میں فاطمہ کے ساتھ کام کرنے والی ایک اور ملازمہ اجالا کی بھی ایک ویڈیو جمعرات کو شیئر ہوئی تھی جس میں اس نے بتایا ہے کہ وہ ظلم سے تنگ آکر پیر کی حویلی سے بھاگ نکلی تھی۔

اجالا کا کہنا ہے کہ وہ حویلی کاسارا کام کرتی تھی لیکن اسد شاہ کی اہلیہ اسے بلاوجہ سخت تشدد کا نشانہ بناتی تھیں۔ ملازمہ نے بتایا کہ سزا کے طور پر اسے گرم پانی پلایا جاتا اور ساری رات جگایا جاتا تھا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس صورتحال سے تنگ آکر خودکشی کا فیصلہ کرچکی تھی تاہم وہ کچھ عرصہ قبل حویلی سےبھاگ آئی تھی۔

یاد رہے کہ منظر عام پر آنے والی ویڈیوز کے بعد پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے پیر اسد شاہ کو حراست میں لے لیا تھا۔ خیرپور پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بچی کے بارے میں والدین کی جانب سے اطلاع ملی تھی کہ ان کی بیٹی کی پراسرار موت ہوئی ہے اور یہ کہ بچی کی تدفین بھی ہوچکی ہے۔

کیس میں نامزد پیراسد شاہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ سوبھوڈیرو کی عدالت نے جمعرات کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پرپولیس کے حوالے کیا گیا جب کہ سندھ ہائی کورٹ سکھر نے اسی کیس میں ملزم کی بیوی ملزمہ حنا شاہ کی 7 روز کے لیے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔ پولیس نے عدالت سے بچی کی قبرکشائی کی اجازت طلب کی تھی جو دے دی گئی ہے۔

ایس ایس پی میر روحیل کھوسو کے مطابق مجسٹریٹ نے ڈی جی ہیلتھ سندھ کو بچی کے پوسٹ مارٹم کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا حکم دیا ہے جس کے بعد قبرکشائی اور پھر پوسٹ مارٹم کیا جائے گا تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp