‎خاموشی کا شور

ہفتہ 19 اگست 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‎چاروں طرف ایک عجیب سی خاموشی۔ ،خوف ، کپکپی، بے بسی، اور موت کا انتظار۔ کبھی ایسا منظر دیکھا ہے کہ موت سر پر کھڑی ہو؟ آپ اس خوف میں مبتلا ہوں کہ موت اب آئی کہ تب آئی۔ کبھی سناٹے کا شور سناہے؟ مکمل خاموشی ہو لیکن دماغ پر ہتھوڑے برس رہے ہوں۔ موت کا انتظار کرنا کیسا لگتا ہے؟ جب آخری لمحات میں زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے سے آخری بار گزرتی ہےکہ پتا نہیں ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ دوبارہ وقت گزارنے کا موقع ملے گا یا نہیں۔

‎بالکل ایساہوا ہے ، کسی ایک فرد کے ساتھ نہیں بلکہ درجنوں خاندانوں کے ساتھ۔ جب توہین مذہب کے الزامات سامنے آنے کے بعد ہجوم نے جڑانوالہ کے مختلف علاقوں میں مسیحی آبادیوں کو نشانہ بنایا۔ جان بچانےکی خاطراپنے گھر بار چھوڑ کر شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اورجن کے رشتہ دار قریب نہیں تھے ان کو رات کھیتوں میں گزارنی پڑی۔ اس خوف کے عالم کی یہ گھڑیاں جانے کیسے گزری ہوں گی؟ چند لمحے آنکھیں بند کرکے تصور کرنے کی ضرورت ہے!!!

‎مشتعل مظاہرین کی جانب سے مسیحی آبادی پر دھاوا بول کر 19گرجا گھروں اور86مکانات کو نذرِ آتش کر دیا۔ یہ اسی طرح کے مناظر تھے جو سنہ 1947 میں دیکھے گئے جب جلاؤ گھیراؤ کے بعد لوگوں کو اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔ آج ایک آزاد اور سب کے لیے ماں کا کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرنے والی ریاست میں وہ یہ سب دیکھ رہے تھے۔

‎غیر مسلم پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ہمیں ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے رہے ہیں اور جانے کب تک یہ سب ہوتا رہے گا۔ توہین مذہب ہمارے ہاں ایسا ہتھیار بن چکا ہے کہ جو جب چاہے اپنی مرضی کے مطابق اسے کسی کے خلاف بھی استعمال کرلے۔

‎سن 2018 میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی توہینِ مذہب کے مقدمے میں بریت کے بعد بہت بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے جس کے بعد ان کوبیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔ سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام پر ہجوم نے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا پر بہیمانہ تشددکر کے قتل کر دیا اور پھر ان کی لاش کو آگ لگادی۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی توہین رسالت کے الزام میں ان کے اپنے ہی محافظ پولیس اہلکار نے سرعام سڑک پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی ہزاروں واقعات ہیں ۔جن کے بارے میں کیلینڈر اورتصویریں بولتی ہیں لیکن لب جنبش نہیں کرتے، کیونکہ ان کو خوف ہے کہ جو آواز اٹھائے گا وہ خود توہین کا مرتکب قرار پاکر جان سے جائے گا۔

‎ مذہبی اقلیتوں میں خوف کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ مذہب کے نام پہ غارت گری عروج پر ہے۔ ہم نے مذہب کا ٹھیکہ بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ہر طرف شکاری بیٹھے ہیں جو بسا اوقات تو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادا ت کی خاطر اتنے خوفناک الزام لگادیتے ہیں۔ توہین مذہب کے کیسز میں اکثر وجوہات وہ ہوتیں ہی نہیں جو ابتدا میں الزام لگانے والوں کی جانب سے بتائی جاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی سانحہ یکدم وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ اس کے محرکات اور پس منظر بھی ہوتا ہے۔ ہم بھی ذرا اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو یہ بارودی سرنگیں ہماری ہی بچھائی ہیں۔
‎وقت کرتا ہے پرورش برسوں
‎حادثہ یک دم نہیں ہوتا

‎ہم ذرا حقیقت پسند ہوکر سوچیں تو مصلحت کے نقش نمایاں ہوتےجاتے ہیں اورہر سو وحشت کے رنگ نظر آتے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہورہا ہے تو اس کی ذمہ دار ریاست بھی ہے۔ کیونکہ انتہا پسندوں کو کسی سزا کا خوف نہیں ہوتا۔ وہ ہیرو بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں سزا نہیں دی جائے گی، بلکہ سروں پر بٹھایاجائے گا۔ اس لیے وہ قانون ہاتھ میں لے کر یہ کچھ کررہے ہوتے ہیں۔

اقلیتیں تو رہیں ایک طرف، اپنے کلمہ گو بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ خوف کا عالم یہ ہوتا ہے کہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اکثر اقلیتوں کے تحفظ کے ضامن بھی اس موضوع پر گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جانے کس کا ”مسلمان“ کب جاگ جائے اور کام تمام کرجائے۔ عدالتیں خوف اور ریاست مصلحت کی شکار نظر آتی ہے۔ جب کمزور فیصلے ہوں گے تو معاشرے میں ایسے ہی واقعات جنم لینا کوئی انہونی نہیں کہلائے گی۔

‎ہم کامیابی سے ایسا معاشرہ پروان چڑھانے میں کامیاب ٹھہرے ہیں جس میں آنکھوں والے اندھے اورکانوں والے بہرے لوگ رہتے ہیں جو نہ سچ دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی سننا۔ سب جانتے ہیں کہ ظلم ہوا ہے لیکن انصاف ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ جس سے مذہبی انتہا پسند عناصر مزید مضبوط ہوتے جا رہے ہیں ۔

‎پاکستان کا آئین اور قانون اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے۔ ملک کے بانی قائداعظم نے کہا تھا کہ آپ کو یہاں مکمل آزادی ہوگی چاہے آپ مندروں میں جائیں یا مسجدوں میں۔ جس مذہب کے نام پر ہم یہ سب کررہے ہوتے ہیں، اس کی تعلیمات بڑی واضح ہیں۔ لیکن اگر کوئی مسئلہ ہے تو بدقسمتی سے وہ ریاست کا ہے۔ جب تک ریاست فیصلہ نہیں کرتی تب تک ایسے واقعات دنیا میں ہمارے لیے شرم کا باعث بنتے رہیں گے اور ہم ایک ایسی ریاست بن جائیں گے جہاں ”اقلیتوں“ کے بعد ”اکثریت“ بھی محفوظ نہیں رہتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp