سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں نوٹ جاری کر دیا ہے۔ جس میں انہوں نے قرار دیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت 3 رکنی کمیٹی بنچز تشکیل دینے کی مجاز ہے۔
const.p._21_2022_note_18082023 by A. Khaliq Butt on Scribd
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق 16 مئی کی سماعت سے قبل بھی چیف جسٹس کو بنچ پر تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے قرار دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی آئندہ تاریخ مقرر نہیں جبکہ نیب ترمیمی کیس مقرر ہوگیا۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ کے جج کے نوٹ کے مطابق فریقین کو موقع دینا چاہتا ہوں کہ بنچ کی قانونی حیثیت پر معاونت کریں۔ نیز یہ کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلہ یا بطور متبادل فل کورٹ میں سے تشکیل دیا جائے۔
نوٹ کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق 184/3 کےتمام زیرالتواء مقدمات پر ہوتا ہے۔ معلوم ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو 8 رکنی بنچ معطل کر چکا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں قرار دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی معطلی کا حکم محض عبوری نوعیت کا ہے۔ قانون درست قرار پایا تو اس کا اطلاق نفاذ کی تاریخ سے ہوگا نہ کہ عدالتئ فیصلے کے دن سے۔
نوٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی قرار پایا تو نیب کیس سننے والا بنچ غیر قانونی تصور ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ میری رائے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلے تک 184/3 کے مقدمات نہ سنے جائیں۔