مرزا غالب کو پرستاروں سے بچھڑے 154 برس بیت گئے۔ ڈیڑھ صدی سے زائد کے عرصہ میں غالب کی تخلیقات پر مختلف زاویوں سے بے تحاشا کام ہو چکا ہے اور ہو بھی رہا ہے۔
غالب کی زندگی کو فلمایا بھی گیا اور غالب پر فلم بنانے کا خیال پہلے پہل منٹو کو سوجھا۔ ان دنوں منٹو آل انڈیا ریڈیو سے منسلک تھے۔ غالباً 1941 کی بات ہے جب انہوں نے احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط لکھا تھا:
‘میں آج کل غالب پر فلمی افسانہ لکھنے کے سلسلے میں بہت مصروف ہوں۔ خدا جانے کیا کیا خرافات پڑھ رہا ہوں۔ سب کتابیں منگوا لی ہیں۔ کام کی ایک بھی نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے سوانح نگار سوانح لکھتے ہیں یا لطیفے۔ کچھ مواد میں نے جمع کر لیا ہے اور کچھ ابھی جمع کرنا ہے۔’
سعادت حسن منٹو نے فلم ’غالب‘ کا سکرپٹ 1942 میں مکمل کر لیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد منٹو پاکستان آ گئے اور سکرپٹ بھارت میں ہی رہ گیا ۔
فلمساز سہراب مودی کو کہیں سے بھنک پڑی کہ منٹو نے غالب پر سکرپٹ لکھ رکھا ہے۔ سکرپٹ حاصل کرتے ہی سہراب مودی نے اسے فلمانے کی ٹھان لی۔ چونکہ منٹو موجود نہیں تھے اس لیے فلم کے
مکالمے لکھنے کی ذمہ داری راجندر سنگھ بیدی کو سونپی گئی ۔
غالب کا کردار بھارت بھوشن نے نبھایا۔ ان کے ساتھ مرکزی کردار اداکارہ و گلوکار ثریا نے ادا کیا ۔فلم میں شامل ایک غزل’ ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور‘ گلوکار محمد رفیع نے گائی تھی۔
فلم کی تکمیل پر کچھ مناظر پر سنسر بورڈ کی جانب سے اعتراضات ہوئے تو سہراب مودی نے اسوقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو سے وقت لیکر انہیں فلم دکھائی اور اجازت نامہ حاصل کیا ۔
فلم 10 دسمبر 1954 کو سینما گھروں کی زینت بنی۔بھارت کی پہلی اُردو فلم تھی جسے نیشنل فلم ایوارڈ اور بھارتی صدر کے سنہری تمغے سے نوازا گیا ۔
بلا شبہ ’مرزا غالب‘ سینما کے حوالے سے منٹو کی شاندار تخلیق تھی۔ فلم ’مرزا غالب‘ جب شہرت و داد سمیٹ رہی تھی اس وقت منٹو دنیا چھوڑ چکے تھے ۔
بھارت میں پذیرائی کے بعد پاکستان میں بھی فلم غالب بنائی گئی۔فلم ساز عطا اللہ شاہ ہاشمی نے سکرپٹ شاعر غزنوی جبکہ مکالمے آغا شورش کاشمیری سے لکھوائے۔ اداکار سدھیر نے غالب کا کردار ادا کیا۔
فلم 24 نومبر 1961 کو ریلیز ہوئی تاہم خاطر خواہ پذیرائی نہ پا سکی۔ فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کی آخری فلم بھی ثابت ہوئی۔
’غالب بندر روڈ پر‘ خواجہ معین الدین کا تحریر کردہ مشہور ڈرامہ تھا۔یہ ڈرامہ پہلی بار جون 1956 میں کراچی کے کیٹرک ہال میں پرفارم کیا گیا تھا۔ اسے معروف صداکار ضیا محی الدین نے پروڈیوس کیا تھا۔ تھیٹر پر کامیابی ملنے کے بعد پی ٹی وی نے بھی اسے بنایا۔ غالب کا کردار سبحانی بایونس نے مہارت سے نبھایا ۔
غالب پر فلم بند کیا گیا سب سے اہم کام گلزار(سمپورن سنگھ کالرا) نے کیا۔ بھارتی نیشنل ٹی وی دور درشن کے لیے بنائی گئی ڈرامہ ’سیریل مرزاغالب‘ 1988 میں نشر ہوئی۔
سکرپٹ کے لیے تحقیقی کام کیفی اعظمی اور گلزار نے مشترکہ طور پر کیا جبکہ اسے سکرپٹ کے میں قالب میں ڈھالنے کا فریضہ گلزار نے ادا کیا۔ یہی نہیں گلزار نے ڈرامہ کو ڈائریکٹ بھی کیا۔
غالب کا کردار نصیرالدین شاہ نے اتنی مہارت سے نبھایا کہ اکثر ملاقاتی انہیں آج بھی مرزا غالب کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔ نصیر الدین شاہ کہتے ہیں ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ غالب کا کردار ادا کریں۔
وہ کہتے ہیں ’میں 1974 میں فلم انسٹی ٹیوٹ میں پڑھ رہا تھا جب میرے ایک دوست نے بتایا گلزار صاحب مرزا غالب پر فلم بنا رہے ہیں۔ مرکزی کردار کے لیے سنجیو کمار کو کاسٹ کرنا چاہ رہے ہیں۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ اس سے قطع نظر کہ سنجیو کمار کمال کے ایکٹر تھے۔ سبھی ان کا لوہا مانتے ہیں۔ لیکن میں غالب کے کریکٹر میں ان کا تصور کر ہی نہیں پایا‘۔
’ تگ و دو کے بعد گلزار صاحب کا پوسٹل ایڈریس ڈھونڈا اور انہیں خط لکھا اور اپنی تصویر بھیجی۔ لکھا آپ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ میں ہی وہ ایکٹر ہوں جس کی آپ کو تلاش ہے۔ میں غالباً تئیس برس کا تھا۔ خط میں یہ جھوٹ بھی لکھا کہ میں غالب کی شاعری سے واقف ہوں۔ آدھا سچ بھی لکھا کہ گلی قاسم جان میں رہا ہوں (غالب کی گلی قاسم جان میں میرے ابو کے پھوپھا رہتے تھے۔ غالب کے گھر میں کوئلے کی ٹال ہوا کرتی تھی میں سوچا کرتا تھا کہ غالب اتنے بڑے شاعر تھے تو ان کےگھر ایسی حالت کیوں ہے؟)۔ حالانکہ میں میرٹھ کا رہنے والا ہوں جہاں سے غالب کی شراب آتی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ سنجیو کمار کو دل کا دورہ پڑا تو فلم پر کام رک گیا تھا‘۔
نصیرالدین شاہ کے خط کو بارہ برس بیت چکے تھے جب ایک دن انہیں گلزار کا فون آیا۔ گلزار نے پوچھا ’غالب‘ کرو گے؟۔ اس وقت نصیر الدین شاہ کی عجیب کیفیت تھی ریسیور ان کے ہاتھ سے گرنے لگا تھا۔
نصیر الدین شاہ کہتے ہیں’مجھے لگا فون میرے ہاتھ سے گر جائے گا میرا خواب کیسے سچ ہوگیا۔ میں گلزار بھائی کا ہزار بار احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے چنا۔ صرف اس لیے نہیں کہ یہ بہت بڑا کردار تھا۔ اس لیے بھی کی اردو شاعری سے تعارف ہونا بڑی بات تھی ۔ پہلے میں سمجھتا تھا ورڈورتھ، کیٹس اور رابرٹ براؤنی ہی شاعر ہیں۔ جبکہ شیکسپئر اور برنارڈ شاہ ہی ناٹک لکھتے ہیں‘ ۔
’میرا اردو سے عشق غالب سے شروع ہوا۔ مجھے دوبارہ یہ کردار کرنے کا موقع ملے تو پہلے سے بہتر کر سکوں گا۔ اس وقت مجھے نہ شاعری کی سمجھ تھی نہ ہی ادائیگی کا سلیقہ۔ تلفظ کے حوالے سے مجھ پر تنقید بھی ہوئی جسے میں نے سر آنکھوں پر رکھا‘ ۔
’گلزار بھائی ’مرزاغالب‘ کو 16 ایم ایم میں ریکارڈ کرنا چاہتے تھے لیکن پروڈیوسر جے سنگھ نہیں مانا۔ اس بے وقوفی کے کیا کہنے کہ سیریل ویڈیو ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا۔ سکرپٹ گلزار نے فلم کے لیے لکھا تھا لیکن فلم نہیں بن سکی تو انہیں ڈرامے کے لیے زیادہ آزادی مل گئی۔ سکرپٹ میں تبدیلی کی گئی اسے بڑھایا گیا‘۔
چند گھنٹوں پر محیط ’مرزا غالب‘ کی ریکارڈنگ ایک سال میں مکمل ہوئی تو یہ حیرت کی بات نہیں کہ غالب جیسا دوسرا سیریل نہیں بنایا جا سکا۔ غالب کی شوٹ شروع ہوئی تو غالب کو توجہ سے پڑھا پھر پتا چلا وہ کتنے بڑے شاعر ہیں‘۔
نصیر الدین شاہ کہتے ہیں ’ایک دن ہمت باندھ کر گلزار صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ میں نے آپ کو 1974 میں ایک خط لکھا تھا کہ غالب کا کردار مجھے دیا جائے۔ انہوں نے حیرانی سے جواب دیا ’مجھے آپ کا کوئی خط نہیں ملا‘۔