زرمبادلہ ذخائر ڈالر میں رکھنے کے رجحان میں کمی کا عمل ناقابل واپسی ہے، روسی صدر

بدھ 23 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکی کرنسی ڈالر میں رکھنے کے رجحان میں کمی کا عمل ناقابل واپسی ہے۔

جنوبی افریقہ میں برکس سربراہی اجلاس کے شرکا سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ڈی ڈالرائزیشن کے دوران دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں باہمی لین دین میں ڈالر پر انحصار کو کم کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ برکس کے 5 ارکان یعنی روس، چین، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ نئے عالمی اقتصادی رہنما بن رہے ہیں اور عالمی جی ڈی پی میں ان کا مجموعی حصہ 26 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اگر قوت خرید کی برابری سے پیمائش کی جائے تو برکس نے پہلے ہی 7 سرکردہ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

عالمی معیشت میں برکس کا حصہ 31 فیصد جبکہ جی سیون کا 30 فیصد ہے

’عالمی معیشت میں برکس کا حصہ 31 فیصد جبکہ جی سیون کا 30 فیصد ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں برکس کے رکن ممالک کے درمیان باہمی سرمایہ کاری میں 6 گنا اضافہ ہوا ہے‘۔

روسی صدر نے کہاکہ عالمی معیشت میں ان کی کل سرمایہ کاری دوگنا ہو چکی ہے جبکہ ان کی مجموعی برآمدات عالمی برآمدات کا 20 فیصد ہیں۔ روسی صدر نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں توانائی اور خوراک کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے روس اپنے ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس کے راستوں کو قابل اعتماد غیر ملکی شراکت داروں کی طرف موڑنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

روسی صدر نے کہاکہ روس کے بنیادی اہداف میں شمالی سمندری راستے اور شمال، جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور کی ترقی شامل ہے۔ پہلا راستہ روس کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ آرکٹک اوقیانوس سے گزرتے ہوئے یورپ اور مشرق بعید کے درمیان سامان کی تیز تر ترسیل کو یقینی بنائے گا۔

عالمی خوراک اور توانائی کی حفاظت میں حصہ ڈال رہے ہیں

ان کے مطابق دوسرا راستہ روس کی شمالی اور بالٹک بندرگاہوں کو خلیج فارس اور بحر ہند سے جوڑے گا، جس سے یوریشین اور افریقی ممالک کے درمیان کارگو کی نقل و حرکت میں سہولت ہوگی۔

روسی صدر نے کہاکہ ہم گلوبل ساؤتھ کی ریاستوں کو ایندھن، خوراک اور کھاد کی سپلائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں اور عالمی خوراک اور توانائی کی حفاظت میں فعال طور پر حصہ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے خوراک کے موجودہ بین الاقوامی بحران کا ذمہ دار مغرب کی یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کو قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ غیر قانونی پابندیاں بین الاقوامی اقتصادی صورتحال پر سنگین بوجھ ڈالتی ہیں اور خودمختار ریاستوں کے اثاثوں کو غیر قانونی طور پر منجمد کرنا آزاد تجارت اور اقتصادی تعاون کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ دنیا بھر میں وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات ایسی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہیں۔

انہوں نے اناج اور خوراک کی انتہائی بلند قیمتوں کو اس عمل کے تازہ ترین مظہر قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ بنیادی طور پر سب سے زیادہ کمزور ممالک کو متاثر کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp