سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اپیلوں پر سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔
حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کی سزا کے خلاف درخواست گزار کی ایک درخواست کل اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔ کیس کے قابلِ سماعت ہونے اور اختیار سماعت کے حوالے سے پہلے ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنا چاہیے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ کیس کل ہائیکورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہے اس لیے سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے گی۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے تسلیم کیا کہ ٹرائل کورٹ نے شکایت کے قابل سماعت ہونے اور اختیار سماعت پر فیصلہ نہیں دیا، ایسا کر کے ہائیکورٹ کی ہدایات کی حکم عدولی کی گئی۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ نے حکمنامے میں لکھا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان 5 اگست سے جیل میں ہیں، ہائیکورٹ اپیلوں پر پہلے فیصلہ کرے، سزا معطلی کی اپیل ہائیکورٹ میں کل سماعت کے لیے مقرر ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا مناسب ہے، کیس کی مزید سماعت کل دن 2 بجے ہوگی۔
حکمنامے کے مطابق درخواست گزار کے وکیل نے ہائیکورٹ کا آرڈر پڑھا جس کے مطابق کیس کے اختیار سماعت اور قابلِ سماعت ہونے کے نکات ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ کیے گئے۔ کیس متعدد بار کال کیا گیا لیکن درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے کوئی عدالت میں پیش نہ ہوا۔
یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کو سنے بغیر یکطرفہ طور پر الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ کردیا۔ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 3 سال قید کی سزا سنائی۔
ٹرائل کورٹ نے ان نکات کا سہارا لیا جنہیں ہائیکورٹ کالعدم قرار دے چکی تھی
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزار نے اپنے 342 کے بیان میں گواہان پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کے گواہان کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہوئے درخواست مسترد کردی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے درخواست گزار کے وکیل کے نکات کی تصدیق کی۔
حکمنامے کے مطابق ٹرائل کورٹ کے حتمی فیصلے نے 5 مئی اور 8 جولائی کے فیصلوں کی تصدیق کی جنہیں ہائیکورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی تھی۔ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے فیصلے کے لیے ان نکات کا سہارا لیا جنہیں ہائیکورٹ پہلے سے کالعدم قرار دے چکی تھی۔ یہ سنجیدہ قانونی نکات انتہائی توجہ کے مستحق ہیں۔