جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامفوسا نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران ان 6 ممالک میں ہیں جو اگلے سال برکس کے نئے ارکان کی حیثیت سے شامل ہوں گے۔
رامفوسا نے کہا کہ 5 بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں چین، برازیل، جنوبی افریقہ، روس اور بھارت پر مشتمل گروپ نے اس ہفتے جوہانسبرگ میں منعقدہ 3 روزہ سالانہ سربراہ اجلاس کے دوران ’برکس توسیعی عمل کے رہنما اصولوں، معیارات اور طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے۔
پہلے مرحلے میں ارجنٹائن، مصر، ایتھوپیا اور متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور ایران جنوری 2024 میں برکس کے مکمل رکن بن جائیں گے۔ اس کے بعد دیگر مراحل آئیں گے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ رکنیت میں توسیع تاریخی ہے۔ توسیع برکس تعاون کے لیے ایک نیا نقطہ آغاز بھی ہے۔ اس سے برکس تعاون کے طریقہ کار میں نئی توانائی آئے گی اور عالمی امن اور ترقی کے لیے طاقت کو مزید تقویت ملے گی۔
ایرانی صدر کے ایک سینئر مشیر نے بھی گروپ میں ایران کی شمولیت کا خیر مقدم کیا۔ محمد جمشیدی نے ایکس پر لکھا کہ عالمی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ میں مستقل رکنیت کو اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک تاریخی پیشرفت اور اسٹریٹجک کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
ایتھوپیا کے وزیراعظم ابی احمد نے اسے اپنے ملک کے لیے ایک عظیم لمحہ قرار دیا ہے۔ کہا ایتھوپیا ایک جامع اور خوشحال عالمی نظام کے لیے سب کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
رامفوسا نے کہا کہ 5 برکس ممالک کا کور گروپ ایک سال سے زیادہ عرصے سے توسیع کے معاملے پر تبادلہ خیال کر رہا تھا اور رواں ہفتے برکس سمٹ میں ایک معاہدے پر پہنچنے کے بعد نئے ممبروں کو مدعو کیا گیا تھا۔
گروپ کی توسیع اس منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد غلبہ قائم کرنا اور عالمی حکمرانی کو ایک ’ملٹی پولر‘ عالمی نظام میں تبدیل کرنا ہے جو جنوبی دنیا کی آوازوں کو عالمی ایجنڈے کے مرکز میں رکھتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور چین کی جانب سے توسیع پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انہیں پابندیوں کی شکل میں مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے۔ دیگر برکس ممالک شروع میں زیادہ 2 ٹوک تھے، لیکن رہنماؤں نے اس ہفتے اس منصوبے کی کھل کر حمایت کی۔
مزید پڑھیں
ابھرتی ہوئی معیشتوں کا گروپ 15 سال سے باضابطہ وجود میں ہے۔ کچھ ماہرین نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس سے بہت کچھ حاصل نہیں ہوا، اور ان کے سیاسی اور سماجی مفادات کی پھیلتی ہوئی نوعیت کا مطلب ہے کہ برکس رہنما ہمیشہ مسائل پر متفق نہیں ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نے انہیں زیادہ طاقتور یا مؤثر ادارہ بننے سے روک دیا ہے۔
پریٹوریا یونیورسٹی میں سینٹر فار ایڈوانسمنٹ آف اسکالرشپ کے پروفیسر ڈینی بریڈلو نے سمٹ سے قبل الجزیرہ کو بتایا تھا کہ ’برکس ایک طرح سے جو کچھ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسے مزید بحث کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک صرف 5 ممالک تھے، وہ عالمی اقتصادی گورننس یا عالمی گورننس میں اصلاحات کے بارے میں بات کر رہے تھے لیکن انہوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا ’پانچوں کے درمیان معاہدے حاصل کرنا اتنا آسان نہیں تھا، اگر وہ رکنیت میں توسیع کرتے ہیں تو یہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے لیکن یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ وہ نئے ممبروں کے طور پر کس کس کو لیتے ہیں۔
40 سے زیادہ ممالک نے برکس میں شمولیت میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا اور 23 نے باضابطہ طور پر کلب میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی تھی، جو پہلے ہی عالمی معیشت کا ایک چوتھائی اور دنیا کی 40 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔
قریباً 50 دیگر سربراہان مملکت اور رہنما جنوبی افریقہ میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جو جمعرات کو اختتام پذیر ہو رہا ہے۔