کیا پاکستان کا کوئی خلائی مشن بھی چاند پر پہنچ سکتا ہے؟

جمعرات 24 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پڑوسی ملک بھارت کا تاریخی خلائی مشن چندریان-3 چاند پر لینڈ کرگیا اور اس کے ساتھ ہی بھارت یہ خلائی مشن سر کرنے والے دنیا کے چند ممالک میں شامل ہوگیا۔

چندریان-3 کا چاند پر پہنچنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اسپیس (خلائی) ٹیکنالوجی میں بھی بہت ترقی کر چکا ہے۔ پاکستان میں اسپیس ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں اور شعبہ تعلیم سے متعلقہ سابقہ اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ تعلیم کے لیے بجٹ مختص نہ کرنا پاکستان کا کسی بھی ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہنے کی بنیادی وجہ ہے۔ اگر ہمیں بھارت سمیت دیگر ممالک کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں تعلیم اور ریسرچ پر بہت خرچ کرنا ہو گا۔

بھارت نے گزشتہ سال پانے خلائی پروگرام کے لیے اپنے  بجٹ میں ایک ارب 93 کروڑ امریکی ڈالر مختص کیے جبکہ پاکستان کے سرکاری خلائی ادارے سپارکو کے 9 پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کے لیے کل 8 ارب 74 کروڑ روپے (3 کروڑ 12 لاکھ ڈالرز) مختص کیے گئے ہیں۔

وی نیوز نے پاکستان کے سرکاری خلائی ادارے سپارکو، اسلام آباد میں اسپیس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور دیگر پرائیوٹ خلائی اداروں میں سینیئر لیول پر کام کرنے والے افراد سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان کا بھی کوئی خلائی مشن چاند پر پہنچ سکتا ہے؟ پاکستان کا سرکاری خلائی ادارہ سپارکو کیا کام کر رہا ہے؟

پاکستان کے ممتاز سائنسدان اور ملک میں سائنس اور اعلیٰ تعلیم کی ترقی میں شاندار خدمات انجام دینے والے پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حالات انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے بجٹ گزشتہ 6 سالوں سے منجمد ہیں جس کی وجہ سے یہ یونیورسٹیاں بند ہونے کے دہانے پر کھڑی ہیں جبکہ جامعات کالجز اور کالج اسکول میں تبدیل ہو رہے ہیں جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہم تیزی سے پیچھے جا رہے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں کوئی نئے ریسرچ ادارے نہیں بنے ہیں، بھارت میں پہلے 5 ریسرچ سنٹر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی تھے اور اب انہوں نے 17 بنا لیے ہیں، اس نے امریکا کے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن  کے ساتھ معاہدے کیے، اس کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹ 150 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہے اور پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ ابھی صرف 3 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے چاند پر پہنچنے کے علاوہ باقی شعبوں میں بھی بہت ترقی کی ہے جبکہ دنیا بھر میں کرونا وائرس ویکسین کی سب سے زیادہ تیاری بھارت میں کی گئی۔

ممتاز سائنسدان نے کہا کہ بھارتی حکومت نے 50 سال پہلے طے کر لیا تھا کہ ہم جو بنائیں گے وہی استعمال بھی کریں گے اور کھائیں گے بھی اور وہاں وزرا و افسران اپنے ملک کی بنی گاڑی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ انہیں بڑی گاڑیاں استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی لیڈر نہرو کا وژن تھا کہ ہمیں تعلیم کے ذریعے آگے بڑھنا ہے جبکہ ہمارے لیڈروں کا مقصد رہا کہ ’پیسے کماؤ اور ملک چھوڑ کر باہر چلے جاؤ‘۔

پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومتوں کو سمجھنا ہو گا کہ اب دنیا بدل چکی ہے اور یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اب علم پر مبنی معیشت ہی کامیاب ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو سب سے زیادہ اہمیت تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو دینی ہو گی جس کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے اور اس حوالے سے ہر وزارت کو ہائی ٹیکنالوجی کے ٹارگٹس دینے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف اسپیس ٹیکنالوجی میں ہی نہیں بلکہ تمام ٹیکنالوجیز میں بہت پیچھے رہ گیا ہے، ہم ایک سوئی تک نہیں بنا سکتے اور یہاں گاڑیوں کے صرف نٹ بولٹ ٹائٹ کیے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی پارٹ بنایا نہیں جاتا جبکہ بھارت 60 سال سے اپنی گاڑیاں بنا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسپیس ٹیکنالوجی تو دور کی بات ہے یہاں تو بچوں کو اسکول ہی دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان سے کوئی بھی ہائی ٹیکنالوجی ایکسپورٹ نہیں کی جا رہی۔

اسپیس انجینئر اور نجی خلائی کمپنی کے جنرل مینیجر دانیال سہیل ملک نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی خلائی مشن چندریان-3 جب چاند پر پہنچا تو دنیا نے بھارت کو داد دی۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی مشن سب سے کم خرچ پر چاند پر پہنچا ہے اور اس نے 50 کروڑ ڈالر کا خلائی مشن صرف 7 کروڑ 50 لاکھ ڈالر میں مکمل کیا ہے۔

چاند پر جانے کے لیے پاکستان کے پاس فی الوقت کون سا راستہ ہے؟

دانیال سہیل ملک نے کہا کہ پاکستان کے سرکاری خلائی ادارے سپارکو نے گزشتہ 10 سالوں میں محض 2 سیٹلائٹ لانچ کیے ہیں جو کہ چین سےحاصل کیے گئے تھے اور اب تیسرے پر کام جاری ہے تاہم پاکستان میں کوئی ریسرچ نہیں ہو رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپارکو نے باہر یعنی چین سے سیٹلائٹ خریدے اور وہیں سے لانچ کیے صرف اس کا گراؤنڈ سٹیشن پاکستان میں ہے جس سے سپارکو اس کا ڈیٹا لیتا ہے اور مختلف جگہ استعمال کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک سیٹ ون آر پر ہمارے چینلز اور ہماری کمیونیکیشن ہوتی ہے اور پی آر ایس ایس پر ریموٹ سروس کا ڈیٹا آتا ہے اب اگر پاکستان کو چاند پر جانا ہو گا تو اسے کسی ملک کو کہنا ہو گا کہ پیسے لے لو اور ہمیں مشن بنا بھی بنادو اور لانچ بھی کردو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سپارکو کا کسی بھی بین الاقوامی ریسرچ ادارے سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور صرف چین سے سیٹلائٹ حاصل کر کہ اس پر کام کیا جا رہا ہے۔

دانیال سہیل ملک نے کہا کہ پاکستان میں خلائی ٹیکنالوجی کے لیے ایک الگ یونیورسٹی ہے جس سے قابل طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کی تربیت کی جاسکتی ہے اور پاکستان کمرشل سیٹلائٹ پروگرام میں یہ سب شامل بھی تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

اسپیس انجینئر نے کہا کہ پاکستان اب بھارت کا خلائی ٹیکنالوجی میں مقابلہ نہیں کر سکتا، بھارت نے چاند کی ساؤتھ پول پر اپنا خلائی مشن اتارا ہے جو چاند کا تاریک حصہ ہے اور جہاں آج تک کسی ملک نے اپنا مشن نہیں اتارا۔

دانیال سہیل ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان 100 سال بعد وہاں پہنچ سکتا ہے جہاں بھارت ابھی ہے جبکہ پاکستان کا خلائی ادارہ سپارکو بھارت کے خلائی ادارے سے 10 سال قبل بنا تھا اور ڈاکٹر عبدالسلام کے دور میں وہ  بھارت سے آگے تھا تاہم اب ہم بھارت سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلائی مشن میں پرائیویٹ سیکٹر کا بالکل کوئی حصہ نہیں ہے اور سنہ 2030 تک اسپیس ٹیکنالوجی کی اکانومی ایک ہزار ارب ڈالر تک بن جائے گی جبکہ بھارت اور دیگر ممالک میں پرائیویٹ سیکٹر اسپیس اکانومی ہے اور اگر حکومت پاکستان اس پر توجہ دے تو پاکستان بھی خلائی مشن میں ترقی کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ سیکٹر کو خلائی مشن میں شامل کرنے سے سپارکو کی کارکردگی مزید بہتر ہو سکے گی اور وہ ہی خلائی مشن لیڈ کرے گا اور پرائیویٹ سیکٹر اس کی بھرپور مدد کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp