ای مارکنگ کی خرابی؟ انٹرمیڈیٹ امتحانات میں 39 فیصد طلبا فیل

جمعرات 24 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی تعلیمی بورڈ کے زیر اہتمام انٹرمیڈیٹ (پارٹ ون، ٹو) کے سالانہ امتحانات برائے سال 2023 کے نتائج گزشتہ روز جاری ہو چکے، رواں برس پارٹ ٹو میں کامیابی کا تناسب 86.42 فیصد جبکہ پارٹ ون میں کامیابی کا تناسب 61.82 فیصد رہا ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس انٹرمیڈیٹ پارٹ ون میں کل 85717 طلبا نے خود کو امتحانات کے لیے رجسٹرڈ کیا جبکہ امتحانات میں  773 طلبا غیر حاضر تھے۔ حاضر طلبا میں 31602 طلبہ فیل اور 53342 طلبا کامیاب رہے۔

انٹرمیڈیٹ پارٹ ٹو کی بات کی جائے تو کل 74150 طلبا انرول ہوئے، انرول طلبا میں سے 347 طلبا غیر حاضر تھے جبکہ 9999 طلبا فیل اور 63804 طلبا کامیاب ہوئے۔

انٹرمیڈیٹ پارٹ ون میں قریباً 39 فیصد طلبا فیل ہوئے ہیں جو ایک تشویش ناک بات ہے۔ کیونکہ طلبا کی ایک بڑی تعداد اپنے نتائج کی وجہ سے تحفظ کا شکار ہے۔ پاس ہونے والے طلبا بھی مایوس ہیں کیونکہ ان کے مطابق ان کے نمبرز ان کی توقعات سے بہت زیادہ کم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پیپرز کی سنجیدگی سے مارکنگ نہیں کی گئی لیکن کیا واقعی ایسا ممکن ہوتا ہے کہ نمبرز غلط لگ جائیں؟

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ میں پیپر چیکنگ سپر وائزر نے بتایا کہ بالکل ایسا ممکن ہے کہ پیپر چیکنگ سے لے کمپیوٹر میں فیڈ ہونے تک غلطی ہوجائے اور گزشتہ برس سے اس سال کا موازنہ کیا جائے تو اس بار نویں اور گیارہویں جماعت کے نتائج بہت برے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بار یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ میٹرک میں ایک ہی ایکسپرٹ نے بائیو، فزکس اور کیمسٹری کے پریکٹیکلز لیے ہیں اور یہ بات بہت سی جگہوں سے سننے میں آئی ہے۔  انہوں نے کہا کہ ’ایک نے تو خود کہہ دیا تھا کہ میں تو بائیو میں اسپشلائزڈ ہوں مگر مجھے فزکس اور کیمسٹری کا پریکٹیکل لینے کے لیے بھیج دیا گیا ہے تو اس طرح کی چیزیں جب ہوں گی تو طلبا کو کیسے درست نمبرز مل سکتے ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ جو نیا ای مارکنگ سسٹم آیا ہے اس کی وجہ سے بھی یہ بات عین ممکن ہے کہ نمبرز لگانے میں کوتاہی ہو گئی ہو۔

ای مارکنگ سسٹم کیا ہے؟

اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ دنیا ڈیجٹلائز ہوتی جا رہی ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان بھی ٹیکنالوجی کی دنیا میں خود کو ڈھال رہا ہے مگر ظاہر ہے کہ کوئی بھی نیا سسٹم آتا ہے تو شروع میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ای مارکنگ سسٹم میں ہوتا یہ ہے کہ پیپرز کو اسکین کرکے اس ٹیچر کو آن لائن بھیجے جاتے ہیں جس نے چیک کرنے ہوتے ہیں مگر اس میں ایک تو ٹیچر کی شناخت ٹھیک سے نہیں ہوتی، دوسرا یہ بھی امکان ہے کہ جو لوگ پیپر کی اسکیننگ کر رہے ہوتے ہیں ان سے پیپر کا کوئی صفحہ چھوٹ جائے کیونکہ وہ بھی دیہاڑی دار ہوتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اسکیننگ کا کام تو جانتے ہوں مگر اتنے پڑھے لکھے نہ ہوں تو ان کی طرف سے بہت سی غلطیاں ہوسکتی ہیں جیسے آدھا سوال ایک پیج پر ہے اور باقی کا اگلے پر اور ان کی اسکیننگ کے دوران وہ باقی حصے کو آخر میں اسکین کر دیں یا وہ ان سے رہ ہی جائے۔

اور رہی بات ٹیچر کی جو چیک کر رہا ہے، کیا پتا رجسٹرڈ ہوا ہو اور اس کی جگہ پیپر کوئی اور چیک کر رہا ہو جو اتنا پڑھا لکھا نہ ہو یا وہ اس مضمون میں اسپشلائیزڈ ہی نہ ہو اور ان تمام مراحل کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ کمپیوٹر میں نمبرز فیڈ کرتے ہوئے کوئی غلطی ہو جائے اور بعض اوقات زیادہ پیپر چیک کرنے کی ضد میں ٹیچر تیزی میں پیپر چیک کرتے ہوئے مارکنگ میں بہت غلطیاں کرتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان سب چیزوں پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آئی ٹی ایکسپرٹ سے رائے لی جائے کہ اس سسٹم کو کیسے بہتر بنایا جائے، ہر مرحلے پر موجود ہر شخص کی تعلیم اور تجربے کو ضرور مد نظر رکھا جائے، ہیڈ ایگزامینر ٹیچر کے کچھ پیپرز کو دوبارہ ضرور چیک کرے۔ اس سارے عمل سے پہلے سب کو ٹریننگ دی جائے مگر وہ ایسی نہ ہو کہ بس ایک ویڈیو بنا کر سب کو بھیج دی جائے بلکہ فیزیکل ٹریننگ ہونی چاہیے اور سب سے آخری اور اہم چیز یہ ہے کہ ہر ٹیچر سے حلف لیا جائے کہ اگر وہ جان بوجھ کر کوتاہی کرے تو وہ اس کے لیے حرام ہوگا کیونکہ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے بلکہ طلبہ کے مستقبل کی بات ہے۔

فیڈرل بورڈ کے پیپر چیک کرنے والے ایک ٹیچر نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ جو نیا سسٹم ہے اس کی وجہ سے مارکنگ میں بہت سارے مسائل آئے ہیں جس کی وجہ سے طلبا کی ایک بڑی تعداد اپنے نمبرز کے حوالے سے پریشان ہے، کہتے ہیں کہ وہ ایک کالج میں انٹرمیڈیٹ کو پڑھاتے ہیں اور ان کے اچھے طلبا کے نمبرز بھی توقعات سے اس قدر کم ہیں کہ میں خود بھی حیران ہوں کیونکہ آپ کو اپنے اسٹوڈینٹس کے حوالے سے علم ہوتا ہے کہ انہوں نے کیسا پیپر کیا ہوگا۔ اور دوسرا اس ای مارکنگ سسٹم میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں بچے کے 91 نمبر تھے وہاں 19 لگ گئے تو اس طرح کی بھی بہت غلطیاں ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے رواں برس انٹرمیڈیٹ کے نتائج قابل تشویش ہیں۔

علی حیدر اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ کالج کے طالب علم ہیں جنہوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ایک دوست کی خالہ بھی بورڈ کے پیپر چیک کر رہی تھیں اور ان کے دوست نے انہیں بتایا کہ اس کی خالہ کی جگہ ان کی بیٹی نے پیپر چیک کیے جو خود ابھی انٹرمیڈیٹ کی اسٹوڈنٹ ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر یوں پیپر چیکنگ ہوگی تو بچوں کا مستقبل خراب ہی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’میرے 443 نمبرز ہیں جبکہ میری توقعات کے مطابق 480 تک ضرور آنے چاہییں تھے لیکن مجھے کافی مایوسی ہے کیونکہ محنت کا صلہ بھی نہیں ملا اور آگے یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لیے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے ذمے دار وہ ٹیچرز ہیں جنہوں نے ہمارے مستقبل کو نہیں بلکہ اپنی آسانی کو ترجیح دی‘۔

احمد زاہد بیگ اسلام آباد کے ایک گورنمنٹ کالج میں پری انجینیئرنگ کے طالب علم ہیں جنہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے 520 میں سے 446 نمبرز آئے ہیں جبکہ میری توقع تھی کے 460 سے 480 کے درمیان ضرور نمبرز ہوں گے اب پتا نہیں کیوں نمبرز کم آئے ہیں، صرف میرے نہیں بلکہ میرے کچھ دوستوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے میرے 2 سبجیکٹس میں نمبرز بہت کم آئے ہیں باقیوں میں میری توقع کے مطابق ہیں لیکن پھر وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ مارکنگ ٹھیک نہیں کی گئی، ٹیچرز نے سنجیدگی سے پیپرز ہی چیک نہیں کئے، کیونکہ انسان کو پیپر کرکے پتا چل جاتا ہے کہ کتنےنمبرز مل سکتے ہیں اور یہ سب ای مارکنگ کی وجہ سے ہوا کیونکہ سننے میں یہی آیا ہے کہ ٹیچرز نے اپنی آسانی کے لیے ایم سی کیوز کی بنا پر نمبرز دیے ہیں جس کا پہلا پارٹ درست ہے اسے 80 سے زیادہ نمبرز دیے ہیں جن کے 2 سے 3 غلط تھے انہیں 70 کی لائن میں نمبرز دیے جو نا انصافی ہے پہلے بورڈ میں بیٹھ کر چیکنگ ہوتی تھی ہیڈ کی سربراہی میں اب گھروں میں بیٹھ کر پتا نہیں کیسے پیپرز چیک کیے گیے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp