برکس سمٹ: کیا امریکا کے قائدانہ کردار کو مسابقت درپیش ہے؟

جمعہ 25 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ابھرتی ہوئی معیشتوں کے پانچ ملکی گروپ، برکس کی اعلان کردہ توسیع کو چینی صدر شی جن پنگ نے تاریخی قرار دیا ہے تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس اتحاد میں شامل رکن ممالک کے مشترکہ مفادات کس حد تک پھیلے ہوئے ہیں۔

جنوبی افریقہ کے تجارتی مرکز، جوہانسبرگ میں ایک کانفرنس سینٹر میں رکن ممالک کے رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر کا کہنا تھا کہ برکس کی ترقی عالمی امن اور ترقی کے لیے درکار قوت کو مزید مضبوط کرے گی۔

برکس ممالک – برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ – کو اکثر مغربی قیادت والی دنیا کے لیے ایک متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس میں 6 نئے ممالک ارجنٹینا، مصر، ایران، ایتھوپیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، آئندہ برس جنوری میں شامل کرلیے جائیں گے۔

چین وہ ریاست تھی جو مغربی تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے گروپ کی توسیع کے لیے سب سے زیادہ زور دے رہی تھی۔ لندن میں اسکول آف ایفریکن اینڈ اوریئنٹل اسٹڈیز سے منسلک چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اسٹیو سینگ سمجھتے ہیں کہ برکس کے رکن ممالک کے درمیان بظاہر زیادہ مشترکات نہیں ہیں۔

’لیکن صدر شی بلاک کے اپنے ساتھی اراکین کو یہ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ سب مشترکہ مستقبل کے خواہاں ہیں، ان میں سے کوئی بھی مغربی تسلط والی دنیا میں رہنا نہیں چاہتا۔ چینی ایک متبادل عالمی نظام پیش کررہے ہیں۔‘

اسٹیو سینگ کے مطابق اس تجویز کردہ عالمی نظام میں خود مختار ملک اپنی سرحدی حدود میں محفوظ محسوس کر سکیں۔ ’وہ جمہوری امریکیوں اور یورپی طاقتوں کی طرف سے عائد کردہ شرائط کو قبول کیے بغیر ترقی کی متبادل سمت تلاش کر سکتے ہیں۔‘

‘تعمیراتی شراکت داری’

برکس سمٹ کے میزبان اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا گروپ میں شامل ہونیوالے نئے ممالک کے بارے میں اعلان کرتے ہی خوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ برکس کے ساتھ شراکت داری قائم کرنے میں دوسرے ممالک کی دلچسپی کو اہمیت دی جائے گی۔

’بنیادی ممالک کی رکنیت کے معیار پر متفق ہونے کے بعد مستقبل میں مزید ممالک اس میں شامل ہوں گے۔ لیکن اس بار تقسیم تھی کہ کتنے ممالک کو گروپ میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے اور کتنا جلدی۔‘

پانچ نئے ممالک کو برکس گروپ میں شامل کرنے کے بارے میں افواہیں گردش کرنے کے بعد بدھ کو رہنماؤں کی پریس کانفرنس طے کی گئی تھی، جسے آخری لمحات میں منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد برازیل کے صدر لوئیز اناشیو لولا ڈی سلوا طے شدہ عشائیہ میں شریک نہیں ہوئے۔

پھر رات گئے صحافیوں کو جمعرات صبح سویرے پریس کانفرنس کے لیے ایک ایڈوائزری موصول ہوئی، لیکن یہ پریس کانفرنس بھی دو گھنٹے تاخیر کا شکار ہوگئی۔ ان سب باتوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بات چیت آخری لمحات تک جاری تھیں، کیوں کہ چھٹے ملک کا اضافہ ہونا تھا۔

پریس ایونٹ میں، ہر ملک کے رہنما اس خبر پر انفرادی ردعمل دینے کے قابل تھے۔ یوکرین میں مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار ہونے کے خطرے کے پیش نظر روسی صدر ولادیمیر پوٹن روس سے ویڈیو لنک کے ذریعے شامل ہوئے۔

اپنے تبصروں میں، صدر پوٹن نے ایک بار پھر مغربی طاقتوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کا نیو لبرل ازم ترقی پذیر ممالک میں روایتی اقدار اور ایک کثیر قطبی دنیا کے ابھرنے کے لیے خطرہ ہے، جہاں کسی ایک ملک یا بلاک کا غلبہ نہیں ہے۔

نام لیے بغیر، یہ واضح تھا کہ صدر پوٹن کس ملک کے بارے میں بات کر رہے ہیں، یقیناً ان کا مخاطب امریکا ہی تھا۔ اگرچہ برکس سمٹ کوئی سپر پاور میٹنگ میں نہیں تھی لیکن یہاں پر بھی امریکا کے بارے میں بات کی گئی یا اس کا حوالہ دیا گیا۔

امریکی رد عمل

منگل کو، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بلاک کے توسیعی منصوبوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اہم مسائل پر رکن ممالک کے مابین اختلاف رائے کی وجہ سے وہ برکس گروپ کو امریکا یا کسی اور طاقت کے جغرافیائی سیاسی حریف کے طور پر ابھرتا ہوا نہیں دیکھتے۔

جیک سلیوان کا تبصرہ درست بھی ہوسکتا ہے۔ واشنگٹن میں کوئنسی انسٹی ٹیوٹ میں گلوبل ساؤتھ پروگرام کے ڈائریکٹر سارنگ شیڈور نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ برکس کے 6 نئے اراکین میں سے کسی کو بھی امریکا مخالف ریاست نہیں سمجھا جاتا۔

’میرے خیال میں پیغام یہ ہے کہ یہ ایک متنوع ممالک کا مجموعہ ہے، ان میں سے کوئی بھی امریکہ کے قریبی یا رسمی اتحادی نہیں ہیں، ان میں سے دو یا تین امریکا مخالف ہوں گے لیکن بحیثیت مجموعی یہ امریکا مخالف ریاستوں کا گروپ نہیں ہے۔‘

‘امریکہ تمام اصول طے نہیں کر سکتا’

اس کے باوجود برکس کی توسیع ایک تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔ سارنگ شیڈور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ایسی دنیا نہیں ہے جہاں تمام اصول امریکا طے کر سکتا ہے یا تمام اداروں کو چلا سکتا ہے۔

’اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن ایک متبادل؟ نہیں، میں اس متبادل سے کہیں زیادہ ایک مسابقتی نوعیت کی پیش رفت کہوں گا جو فی الحال افق پر ہے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ایک ایسے گروپ کے لیے جو کہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کی رائے کی قدر اور احترام کرتے ہیں، شاید کوئی بھی نہ جیتا ہے نہ ہی ہارا ہے۔ اس تناظر میں برکس سمٹ واقعی صرف ایک سفارتی اجتماع تھا جس میں کچھ لین دین وقع پذیر ہوا ہے۔

صدر پوٹن کو گرفتار نہیں کیا گیا اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت برکس سمٹ میں روس کی نمائندگی ممکن ہوئی۔ دوسری جانب چین کو گروپ کی رکنیت میں توسیع  کے منصوبہ میں کامیابی بھی مل گئی۔ مشترکہ کرنسی کے لیے برازیل کے دباؤ کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔

جوہانسبرگ میں منعقدہ اس برکس سمٹ کے موقع پر بھارت کو امریکہ کے ساتھ اپنی دوستی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا اور جنوبی افریقہ نے ایک کامیاب اجلاس کی میزبانی کی جس کا بظاہر عوامی سطح پر کوئی منفی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp