چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستوں پر سماعت کے بعد واپسی پر لطیف کھوسہ اور دیگر وکلا اسلام آباد ہائیکورٹ کی لفٹ میں پھنس گئے جنہیں وہاں سے تقریباً پونے گھنٹے بعد نکالا گیا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق کی سربراہی میں قائم ڈویژن بینچ میں پیش ہونے کے بعد سینیئر قانون دان لطیف کھوسہ، علی اعجاز بٹر، نعیم پنجوتھہ سمیت 19 افراد لفٹ میں سوار ہوکر گراؤنڈ فلور پر آ رہے تھے لیکن لفٹ چلنے کے فوری بعد ہی بند ہوگئی۔ اس صورتحال کے پیش نظر وہاں وکلا کے علاوہ ہائیکورٹ ملازمین اور دیگر افراد کی کثیر تعداد اکٹھی ہوگئی اور رجسٹرار سمیت ہائیکورٹ کے دیگر حکام کو واقعے کی اطلاع دی گئی جس پر امدادی ٹیم کے انتظار کے بعد وکلا نے اپنی مدد آپ کے تحت لفٹ کھولنے کی کوششیں شروع کردیں اور تقریبا پونے گھنٹے بعد میٹروپولیٹن کارپوریشن کا ریسکیو عملہ موقع پر پہنچا جس نے دوسرے فلور پر لفٹ کو کھولا اور اس میں پھنسے19 افراد کو ریسکیو کرلیا۔
ذرائع کے مطابق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ دن قبل بھی لفٹ خراب ہوئی تھی لیکن لفٹ کو ٹھیک کرانے تک بند نہیں کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفٹ چلنے کے فوری بعد کیوں بند ہوگئی کہیں اس کی وجہ لفٹ میں وزن کی زیادتی تو نہیں تھی؟
اس حوالے سے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایم ایس ایلی ویٹر اینڈ انجینیئرنگ ورکس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر لقمان علی نے بتایا کہ اس بات کا انحصار لفٹ کی گنجائش پر ہے کہ اس میں ایک وقت میں کتنے افراد سوار ہوسکتے ہیں۔
لقمان علی نے کاہ کہ تقریباً ہر لفٹ میں ہی یہ ضرور لکھا ہوتا ہے کہ ایک بار میں کتنے لوگ اور زیادہ سے زیادہ کتنا وزن لفٹ برداشت کر سکتی ہیں مگر یہ جو معاملہ ہائیکورٹ میں پیش آیا ہے اس کی وجہ لفٹ میں وزن کی زیادتی نہیں بلکہ بجلی کا کوئی مسئلہ ہے کیونکہ جب بھی لفٹ میں وزن زیادہ ہوتا ہے اس کا دروازہ اسی وقت کھل جاتا ہے اور وہ چلتی ہی نہیں ہے لیکن اگر لفٹ چلنے کے بعد بند ہو جائے تو اس کی وجہ بجلی کا چلے جانا ہے یا پھر بجلی کے فلو میں کمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تو نئی بلڈنگ تھی اور اب نئی بلڈنگز میں ریسکیو ڈیوائسز لگی ہوئی ہوتی ہیں اور جو ایک مرتبہ کے لیے ہوتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان ڈیوائسز کا یہ کام ہوتا ہے کہ جب بھی بجلی چلی جائے یا لفٹ میں ایک دم کوئی ٹیکنیکل مسئلہ آجائے تو وہ ڈیسوائسز لفٹ کو کسی بھی قریبی فلور پر لے جاتی ہیں اور اس کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
لقمان علی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اگر کوئی یوں لفٹ میں پھنس جائے تو بہت مشکل ہے کہ وہ خود کچھ کر سکتا ہو کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ لفٹ زیادہ وزن کی وجہ سے چلتے چلتے رکے بلکہ وہ بجلی یا کسی ٹیکنیکل مسئلے کی وجہ سے ہی بند ہوتی ہے جس پر اس میں موجود افراد صرف وہاں موجود گھنٹی ہی بجا سکتے ہیں جس سے ایمرجینسی ہارن کے ذریعے بلڈنگ کے باقی افراد ریسکیو کے لیے آ سکتے ہیں مگر ریسکیو کے لیے ہر بلڈنگ میں لفٹ آپریٹر ضرور ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ بجلی کے مسائل کی وجہ سے لفٹ میں کوئی بیک اپ ضرور ہونا چاہیے جیسے یو پی ایس یا پھر جنریٹر اور لفٹ کی ماہانہ بنیاد پر سروسز ہونی چاہیے کیونکہ بسا اوقات لفٹ کے سینسرز مٹی اور دھول کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں جن کی صفائی بہت ضروری ہوتی ہے تو اس طرح کی چیزیں بھی لفٹ کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہر عمارت میں لفٹ آپریٹر موجود ہو تو وہ بھی فوری طور پر لفٹ کو بحال کرسکتا ہے۔ لفٹ کے اوپر والی سائیڈ پر ایک موٹر لگی ہوتی ہیں اور اگر آپریٹر اس کی موٹر کے بریک کو ریلیز کرے تو لفٹ فوری طور پر کسی بھی دروازے کے سامنے آجاتی ہے۔
ایک ایلیویٹر کمپنی کے مالک نے بتایا کہ لفٹ کبھی بھی وزن اور لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے چلتے چلتے نہیں رکتی کیونکہ لفٹ اگر اتنا لوڈ نہیں اٹھا سکتی تو وہ چلنے سے پہلے ہی اپنا دروازہ کھول دیتی ہے اور تب تک نہیں چلتی جب تک لفٹ میں موجود افراد کم نہ ہو جائیں اور اس میں موجود افراد صرف وہاں لگی گھنٹی بجا کے دوسروں کو مطلع کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لفٹ میں بجلی کا بھی مسئلہ ہو جائے تو جنریٹر لگے ہوئے ہوتے ہیں اب پتا نہیں کہ اس لفٹ میں کیا مسئلہ آیا مگر لگتا نہیں کہ وہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہو اگر چابی لگاتے اور دروزاے کو دھکیلتے تو آرام سے دروازہ کھل جاتا اور دوسرا اس مسئلے کو سلجھانے میں جتنا وقت لگا ہے اتنا نہیں لگتا اور کچھ منٹ بعد ہی لفٹ کام کرنا شروع ہوجاتی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اول تو ہر بلڈنگ میں لفٹ آپریٹر ہونے چاہییں اور ہر جگہ ہوتے بھی ہیں جو فوری طور پر لفٹ اسٹارٹ کر کے لوگوں کو ریسکیو کرتے ہیں۔ حتیٰ کے آجکل تو گھروں میں بھی جہاں لفٹ لگی ہو اس کے رہائشی خود ٹریننگ لیتے ہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی لفٹ آپریٹر موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔
لفٹ کے مسائل اور قوانین و ضوابط کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔