گلگت بلتستان کا علاقہ خپلو اسکردو سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک ایسا سیاحتی مقام ہے جہاں آپ کو خپلو پیلس، چیچقن مسجد اور قدیم خانقاہ معلیٰ کے ساتھ ساتھ قدرت کے حسین نظارے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ خپلو میں ایک ایسی مارکیٹ بھی ہے جہاں خواتین نا صرف اپنے لیے روزگار کما رہی ہیں بلکہ علاقے کی دوسری خواتین کے لیے بھی اپنے کام کے ذریعے آگے بڑھنے اور عملی زندگی میں کچھ کرنے کے لیے مثال قائم کر رہی ہیں۔
2017 سے قائم اس مارکیٹ میں اس وقت 15 سے زیادہ خواتین اپنا کام کر رہی ہیں۔ جن میں بیوٹی پارلرز، بوتیک، سلائی سینٹر اور مقامی طور پر بنائی جانے والی اشیا کی دکانیں شامل ہیں۔
سمیرا بتول کا خپلو کی مارکیٹ میں اپنا بیوٹی پارلر
سمیرا بتول وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس مارکیٹ میں کام شروع کیا اور اس وقت وہ مارکیٹ میں اپنا بیوٹی پارلر چلا رہی ہیں۔ ان کے بقول انہیں ہمیشہ سے اپنا بیوٹی پارلر بنانے کا شوق تھا۔ ’مجھے ہمیشہ سے بیوٹیشن بننے کا شوق تھا اور جب میں اسلام آباد میں پڑھ رہی تھی تب میں نے وہاں سے کورس کیا تھا۔ پھر میں نے یہاں آکر گھر میں ایک کمرے سے کام شروع کیا۔ پھر جب یہ مارکیٹ بنی تو میں سب سے پہلی لڑکی تھی جس نے یہاں اپنا پارلر بنایا۔ اب میں مختلف برانڈز کے کپڑے منگوا کر بھی سیل کرتی ہوں‘۔
سمیرا بتول اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے مقامی اجزا پر مشتمل ایک ’شیپو‘ بھی بناتی ہیں جو کہ وہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی بھجواتی ہیں۔
خپلو جیسے دورافتادہ علاقے میں خواتین کا یوں مارکیٹ میں آ کر دکانیں کھولنا اور کام کرنا ان کے لیے یقیناً بہت مشکل ہے۔
ایک ایسے علاقے میں جہاں خواتین زیادہ تر گھروں میں رہ کر کام کرتی ہوں ان کے لیے یوں مارکیٹ میں آ کر دوکانیں کھولنا اور کام کرنا کوئی بہت آسان کام نہ تھا۔
کوثر پروین کا بھی اس مارکیٹ میں پارلر ہے اور ان کا اس مارکیٹ تک آنے اور کام کرنے کا سفر کافی مشکل رہا۔ ’جب میں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو بہت مشکلات تھیں۔ ایک طرف گھر والوں کو منانا مشکل ہو رہا تھا تو دوسری طرف لوگوں کی باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے کہ پارلر کا کام اچھا نہیں ہے۔ خاتون کا اس طرح مارکیٹ میں دوکان کھولنا بری بات ہے’۔
میرا مارکیٹ میں آ کر کام کے لیے اسٹینڈ لینا رائیگاں نہیں گیا، کوثر پروین
لیکن اب کوثر پروین خوش ہیں کہ ان کا مارکیٹ میں آ کر کام کرنے کے لیے اسٹینڈ لینا رائیگاں نہیں گیا۔ ’یہ سچ ہے کہ میں اس کام سے پیسے کما رہی ہوں خود کو اور اپنے گھر والوں کو سپورٹ کر رہی ہوں۔ ظاہر سی بات ہے اب گھر میں اس وجہ سے عزت بھی زیادہ ہے۔ لیکن مجھے اس سے بھی زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ ہماری اس مارکیٹ کی وجہ سے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ اور خواتین کو کام کرنے کی ترغیب مل رہی ہے۔ اب خواتین آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتی ہیں‘۔
سمیرا بتول کو مارکیٹ میں آکر روزگار کمانے کے لیے شوہر کا بھرپور ساتھ
سمیرا بتول اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اس سفر میں اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ ملا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے شوہر نے میری ہر قدم پر مدد کی۔ جب لوگ باتیں بھی کرتے تھے تو انہوں نے میرا ساتھ دیا۔ اگر دوسرے لوگ بھی اسی طرح مثبت سوچیں تو یقین کریں یہاں کی خواتین ہنر میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ خوشی ہے کہ آہستہ آہستہ ہی سہی یہاں کے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے‘۔
قراۃ العین نے دوسری خواتین کو دیکھ کر مارکیٹ میں سلائی کی دکان کھول لی
قراۃالعین نے اس تبدیلی کی ایک ایسی ہی مثال ہیں جنہوں نے سمیرا اور کوثر پروین کو دیکھ کر کچھ عرصہ پہلے اس مارکیٹ میں اپنا سلائی کا کام شروع کیا ہے۔ ان کے بقول پہلے وہ اس مارکیٹ میں خریداری کے لیے آتی تھیں اور پھر ان لوگوں کو دیکھ کر انہوں نے بھی یہاں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’مجھے یہاں سلائی کا کام کرتے ہوئے 8 ماہ کے قریب ہو گئے ہیں۔ کچھ نا کچھ آمدن ہو ہی جاتی ہے اور دوسرا میں اب گھر پر فارغ نہیں رہتی۔ دل خوش ہے کہ میں اپنا کام کرتی ہوں‘۔ قراۃالعین کو امید ہے کہ آہستہ آہستہ کام مزید بہتر ہو ہی جائے گا۔
یہ خواتین پُر امید ہیں کہ جیسے جیسے ان کے علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا تو ان کے کام میں مزید بہتری آئے گی۔ اور ضرور مزید خواتین ان کے ساتھ اس قافلے میں شامل ہوں گی۔