اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ، آج سنایا جائے گا

پیر 28 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی، سماعت کے دوران وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز ملک نے دلائل مکمل کر لیے، وکیل امجد پرویز ملک نے دلائل دیتے ہوئے بھارتی عدالتی فیصلے کے علاوہ نواز شریف نیب کیس، اور میر شکیل الرحمٰن کیس سے متعلق عدالتی فیصلوں پر دلائل دیے، جس کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے فیصلہ محفوظ کر لیا تاہم فیصلہ آج  دن 11 بجے سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں جسٹس طارق جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وکیل الیکشن کمیشن آج ہی دلائل مکمل کریں، عدالت آج ہی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطلی پر فیصلہ کرے گی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ، علی ظفر اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ملک عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز میں بیرسٹر علی ظفر نے چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دینے کی استدعا کی، جبکہ وکیل امجد پرویز ملک نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطلی کی مخالفت کر دی۔

سماعت میں وقفے کے بعد دوبارہ دلائل کا آغاز

اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع  ہوئی تو عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ملک روسٹرم پر آئے اور دلائل کا آغاز کیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، لطیف کھوسہ

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، کچھ فیصلوں کے حوالے دینا چاہتا ہوں، الیکشن کمیشن کے وکیل نے 2 گھنٹے گزشتہ سماعت پر لیے اور گھنٹہ آج لے لیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ جسٹس کھوسہ نے کہا تھا کہ ٹیسٹ میچ کا زمانہ چلا گیا اب 20 ٹونٹی کا دور ہے، لطیف کھوسہ صاحب نے بڑے شائستہ انداز میں کہا ہے کہ مختصر کریں۔

جس پر امجد پرویز ملک نے کہاکہ لطیف کھوسہ نے سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کے لیے 3 دن لیے ہیں، انہوں نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو مشقِ ستم بنا رکھا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ نہیں، چھوڑ دیں اُس طرف نہ جائیں۔

امجد پرویز ملک نے کہاکہ انہوں نے 6 نکات اٹھائے میں نے انکا جواب دینا ہے۔ انہوں نے بیانیہ بنا دیا ہے کہ یہ کوئی پہلا کیس ہے جس میں ملزم کو حقِ دفاع کا موقع نہیں دیا گیا، دفاع کی جانب سے کمپلین کی باقاعدہ اجازت کے حوالے سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔

لطیف کھوسہ کے مطابق باقاعدہ اجازت کے بغیر کمپلین قابل سماعت نہیں ہے، میں عدالت سے الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ پڑھنے کی اجازت چاہتا ہوں، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کو تو ہدایت جاری نہیں کی، وہ کیوں کمپلین کرے؟، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو روکتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ دفتر جو بھی ضروری ہو کرے، الیکشن کمیشن نے کسی فرد کو تو ہدایت جاری نہیں کی، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کو تو ہدایت جاری نہیں کی، وہ کیوں کمپلین کرے؟

وکیل امجد پرویز ملک نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو شکایت دائر کرنے کے لیے اجازت نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا ہے، درحقیقت سیکرٹری کمیشن نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ہی شکایت دائر کرنے کی اجازت دی ہے۔ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے آفس کو شکایت دائر کرنے کا کہا کسی مخصوص شخص کو نہیں، آپکی دلیل اپنی جگہ لیکن سیکرٹری کمیشن نے خود کو متعلقہ شخص کیسے سمجھا؟

وکیل امجد پرویز ملک نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران نے اپنے فیصلے میں متفقہ طور پر اجازت دی۔

چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن اگر سیکرٹری کمیشن کو ڈائریکشن دیتا تو وہ بات الگ تھی، یہاں الیکشن کمیشن نے سیکرٹری کے بجائے آفس کو یہ ہدایت دی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ اس کمپلینٹ کا ڈرافٹ الیکشن کمیشن نے منظور کیا، الیکشن کمیشن کے فل کمیشن نے کمپلینٹ کی منظوری دی، اِس کمپلینٹ کا ڈرافٹ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران سے منظور شدہ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا آپ نے یہ تمام دستاویزات ریکارڈ کے ساتھ لف کیے ہیں؟

امجد پرویز ملک نے کہاکہ یہ دستاویزات لف کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ ایسا کیس نہیں کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ سرے سے موجود ہی نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کا نواز شریف اور میر شکیل الرحمٰن کے کیس کا حوالہ

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیاکہ الیکشن کمیشن نے آفس کو آرڈر کیا، کیا سیکرٹری کے علاوہ کوئی اور بھی کمپلینٹ دائر کر سکتا تھا؟ کیا الیکشن کمیشن کا ڈی جی لاء بھی یہ کمپلینٹ دائر کر سکتا تھا؟

امجد پرویز نے کہاکہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا ایڈمنسٹریٹو سربراہ ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ایڈمنسٹریٹو معاملات رجسٹرار چلاتا ہے، چیف جسٹس کیا رجسٹرار کو کوئی کارروائی کرنے کا کہے گا یا آفس کو؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ چیف جسٹس رجسٹرار کو کہیں یا آفس کو دونوں ہی درست ہونگے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مختلف کیسز کا حوالہ دیا، جن میں میر شکیل الرحمن کے کیس کا بھی حوالہ اور نواز شریف سے متعلق نیب کیس کا بھی حوالہ دیا۔

جس کے بعد چیف جسٹس نے امجد پرویز ملک سے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ ابھی کیا رہ گیا ہے اور مزید کس نکتے پر دلائل دینا باقی ہیں؟

وکیل امجد پرویز ملک نے کہاکہ حقِ دفاع اور 4 ماہ میں کمپلینٹ دائر کرنے کے نکات پر دلائل دینے ہیں، واویلا کیا جا رہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے ہائیکورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کی، واویلا کیا جا رہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے ہائیکورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کی، ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ ملزم کے وکیل عدالت میں پیش ہو کر دلائل دینگے۔

آج ہی دلائل مکمل کریں، چیف جسٹس عامر فاروق

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ میرے دلائل آج مکمل نہ ہو پانے کی ایک وجہ ہے، خواجہ حارث کا بیان حلفی اس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا مجھے بیان حلفی کی تصدیق شدہ کاپی نہیں مل سکی۔

چیف جسٹس نے وکیل امجد پرویز ملک کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ نہیں آج ہی اپنے دلائل مکمل کریں، آپ دلائل جاری رکھیں 2 نکات ہیں ، جو سزا معطلی ہوتی ہے اس میں اتنی تفصیل میں نہیں جاتے، جلد از جلد دلائل مکمل کریں۔

وکیل امجد پرویز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف یہ کیس غلط ڈکلیئریشن کا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیاکہ کیا الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات پبلک دستاویز ہوتا ہے؟

وقفے سے پہلے امجد پرویز ملک کے دلائل اور چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس نے دوران سماعت وکیل امجد پرویز ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے 6 نکات اٹھائے تھے اسی پر رہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے چیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ 2017 میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے گوشوارے چھپائے تھے۔

وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز ملک نے اپنے دلائل میں کہاکہ ہمیں کہا گیا سیکرٹری الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات نہیں ہیں، اسپیشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی سے متعلق سوالات سامنے ہیں، ایسے کیسز میں اسپیشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی ضروری نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ عدالتوں نے دیکھا ہے کہ اسپیشل تعیناتی کی ضرورت نہیں مگر جو پراسیکیورٹر موجود ہے وہ آسکتے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن کا بھارتی عدالت کے فیصلے کا حوالہ

وکیل امجد پرویز نے بھارتی کانگریس رہنما راہول گاندھی کیس پر بھارتی عدالت کا بھی حوالہ دیا اور کہاکہ ہمارے ہاں کم سے کم سزا ایک سال جبکہ بھارت میں کم سے کم 3 سال ہے۔ سزاؤں کے حوالے سے ہمارے اور بھارت کے قوانین میں بہت فرق ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ میں شارٹ سینٹینس کی بنیاد پر سزا معطلی کی اپیل کی مخالفت نہیں کررہا، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو نوٹس کیے بغیر اپیل پر کارروائی نہیں کی جا سکتی اورقانون بھی یہی کہتا ہے کہ حکومت کو نوٹس ضروری ہے۔

’چیرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی درخواست میں ریاست کو فریق نہیں بنایا گیا۔‘

ٹرائل کورٹ میں کہیں ریاست کا ذکر ہی نہیں ہے، چیف جسٹس عامر فاروق

چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ یہ الیکشن کمیشن کی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف پرائیویٹ کمپلینٹ ہے، ٹرائل کورٹ میں کہیں ریاست کا ذکر نہیں آیا، یہاں فریق بنانا کیوں ضروری ہے؟ اور نیب کے مقدمات میں تو پبلک پراسیکیوٹر موجود ہی نہیں ہوتا؟۔

امجد پرویز ملک نے جواب دیاکہ نیب کے اپنے پراسیکیوٹر موجود ہوتے ہیں جنہیں سنا جاتا ہے، نیب قانون میں پبلک پراسیکیوٹر کا ذکر ہی نہیں ہے، پبلک پراسیکیوٹر کی بات سی آر پی سی کرتا ہے، میری یہی درخواست ہے کہ حکومت کو نوٹس جاری کیا جائے کیونکہ قانون میں کومپلینٹ (شکایت) کا لفظ ہی نہیں، اسٹیٹ کا لفظ ہے۔

امجد پرویز کے سیشن کورٹ کے براہ راست کمپلینٹ سننے کے نقطے پر دلائل شروع

تعزیراتِ پاکستان کے تحت کسی بھی جرم کا ٹرائل ہونا ہی سی آر پی سی کے تحت ہے، ٹرائل کورٹ ہی کسی بھی مقدمے میں ٹرائل چلاتی ہے، مجسٹریٹ کے سامنے جب شکایت جاتی ہے تو وہاں سے ٹرائل کا آغاز کیا جاتا ہے، جس طرح کیسز یہاں آتے ہیں اور آپ ان کو دوسری عدالت منتقل کرتے ہیں، اسی طرح ٹرائل کورٹ میں بھی کیسز ایک عدالت سے دوسری عدالت منتقل ہوتے ہیں۔

تقریباً 50 سال کے دوران کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کی کمپلینٹ آج تک کسی مجسٹریٹ کے پاس نہیں گئی ہے، مجسٹریٹ کے پاس تو کسی کمپلیکنٹ پر آرڈر پاس کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے، مجسٹریٹ صرف اپنے دائر اختیار کی کمپلینٹ پر آرڈر جاری کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کمپلینٹ فائل کرنے میں کوئی کوتاہی ہے بھی تو اسکا اثر ٹرائل پر نہیں پڑے گا؟

جی میرا یہی نقطہ ہے کہ ٹرائل تو عدالت نے ہی کرنا ہے، چاہے مجسٹریٹ کے پاس فائل ہو یا براہ راست ہو۔

جمعہ کو ہونے والی سماعت کا احوال

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل کی طبعیت خراب ہوگئی تھی، نتیجتاً سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی تھی۔

جمعہ کی صبح توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو الیکشن کمیشن کے معاون وکیل نے معزز عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کی طبیعت ناساز ہوگئی ہے وہ پیش نہیں ہوسکتے، اس لیے ایک دن کا وقت دیا جائے۔

معاون وکیل نے بتایا کہ کل بھی امجد پرویز صاحب نے دلائل کے دوران دوا لی تھی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر سماعت پیر تک ملتوی کردیتے ہیں۔ جس کے بعد کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp