بجلی کے بل زیادہ کیوں آئے؟ پاور ڈویژن کے حکام سے جواب طلب کرلیا گیا

پیر 28 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک بھر میں بجلی بلوں میں اضافے کے باعث احتجاج جاری ہے، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت بجلی کے زائد بلوں سے متعلق اجلاس بھی آج دوبارہ ہو گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ نگراں حکومت عوام کو کچھ ریلیف دے گی۔

زائد بلوں کا معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں بھی زیر بحث آیا۔ ارکان کمیٹی نے پاور ڈویژن کے حکام سے بجلی کے زائد بلوں پر جواب طلب کیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے دوران ارکان اسمبلی نے ملک بھر میں بجلی کے زائد بلوں پر پاور ڈویژن کے حکام سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے بجلی بلوں میں اچانک اتنا اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟

جوائنٹ سیکریٹری پاور نے کمیٹی کو بتایا کہ بجلی کی قیمت بڑھنے کی 70 فیصد وجہ ڈالر کی قدر میں اضافہ ہے، اس کے علاوہ ایسی بجلی کہ جو بن چکی ہے لیکن استعمال نہیں ہوئی، اس کی قیمت بھی صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں کیپیسٹی پیمنٹس 1300 ارب روپے رہی ہیں جبکہ رواں مالی سال میں پاور سیکٹر کی کیپسٹی پیمنٹس دو ہزار ارب روپے  تک ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اس میں 550 ارب روپے کا اضافہ تو ڈالر اور روپے کے شرح تبادلہ کے باعث ہے۔

چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے پاور ڈویژن کے حکام سے کہا کہ کیپسٹی پیمنٹس کے حوالے سے بجلی بنانے والی کمپنیوں سے بات کی جائے، اضافی چارجز سے عوام پر بہت بوجھ بڑھ گیا ہے، صارفین سے محض استعمال ہونے والی بجلی کے پیسے لیے جائیں۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے اس موقع پر استفسار کیا کہ جب کبھی ڈالر نیچے آتا ہے تو بجلی کی قیمت کم کی جاتی ہے؟ جس پر  پاور ڈویژن حکام نے جواب دیا کہ یہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں دیا جاتا ہے۔ جس پر سینیٹر نے کہا کہ صرف باتیں نہ کریں بلکہ دکھائیں کہ کمی کہاں ہوئی ہے؟

سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کمیٹی اجلاس کے دوران کہا کہ آج کراچی تا خیبر لوگ احتجاج کر رہے ہیں، مظاہرین بجلی کے بل جلا رہے ہیں۔ صورتحال خراب اور حالات سول نافرمانی کی طرف جا رہے ہیں، ملک کمزور ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ اس کا ذمے دار کون ہے؟ بجلی کے بلوں کی وجہ سے عوام پریشان ہیں، ہم آئی ایم ایف کے غلام نہیں ہیں۔ جس پر ایڈیشنل سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ آئی ایم ایف غلط بات نہیں کہتا۔

سینیٹر فدا محمد نے پاور ڈویژن کے حکام سے استفسار کیا کہ اس وقت  بجلی بلوں پر لگائے جانے والے ٹیکسز کون سے ہیں؟ جس پر حکام پاور ڈویژن نے بتایا کہ بجلی کے بلوں میں مختلف اقسام کے 7 ٹیکسز ہیں، جن میں جی ایس ٹی، انکم ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس سمیت دیگر شامل ہیں۔

سینیٹر سیف اللہ نیازی نے پاور ڈویژن کے حکام سے سوال کیا، بتایا جائے کہ بجلی کے بل ادا نہ کرنے والے ڈیفالٹر کی تعداد کیا ہے؟ اور کل کتنی رقم وصول کرنا ہے؟ جس پر پاور ڈویژن کے حکام نے کوئی جواب نہ دیا اور کہا کہ کچھ وقت دے دیں۔ بجلی چوری اور بقایاجات کی تفصیلات جلد فراہم کر دیں گے۔ سینیٹرز نے کہا کہ مجموعی طور پر 1400 ارب روپے کی وصولیاں کرنا ہیں۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp