جوہانسبرگ میں برکس ممالک (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) کے حالیہ سربراہی اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ’چین ترقی پذیر ممالک کا رکن رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا‘۔
ایک جانب چین خود کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں برقرار رکھنا چاہتا ہے تو دوسری جانب امریکہ اسے ترقی یافتہ ملک قرار دینے پر بضد ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان تنازعہ
چین کی ترقی کی حیثیت کے معاملے پر واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ رواں برس مارچ میں امریکی ایوان نمائندگان نے متفقہ طور پر ایک بل منظور کیا جس کا نام ‘پی آر سی از ناٹ اے ڈویلپنگ ایکٹ ‘ہے۔
8 جون کو امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے بھی اس بل کی منظوری دی، جسے اب ‘چین کے ترقی پذیر قوم کی حیثیت ختم کرنے کا ایکٹ ‘کا نام دیا گیا ہے اس میں محکمہ خارجہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ چین کو بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ ترقی پذیر ملک قرار دیے جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ سینیٹ میں اس بل پر ووٹنگ کے لیے کوئی حتمی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔
اس ایکٹ کے ردعمل میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے الزام لگایا کہ امریکہ چین کی ترقی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین کے لیے ترقی پذیر قوم کا لیبل کیوں ضروری ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور عالمی مینوفیکچرنگ پاور ہاؤس بن چکا ہے مگر اس کے باوجود تجزیہ کاروں اور چینی امور کے ماہرین کے درمیان طویل عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ آیا چین ایک ترقی پذیر ملک ہے یا ترقی یافتہ ملک؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ ترقی پذیر قوم کے لیبل کے ساتھ جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ترجیحی ٹیرف میں کمی شامل ہے، جس سے ترقی پذیر ممالک کی برآمدات کو بین الاقوامی منڈیوں میں زیادہ مسابقتی تصور کیا جاتا ہے۔ چین اپنی ترقی پذیر حیثیت کو ماہی گیری اور ٹیکنالوجی جیسی صنعتوں میں سبسڈی حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے حالانکہ ان میں بیشتر سرکاری ملکیت اور عالمی اثرورسوخ رکھتی ہیں ۔
عالمی ادارے مختلف طریقوں سے ایک ملک کی ترقی کی حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ملکوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے ’ترقی پذیر‘ یا ’ترقی یافتہ‘ ہونے کا تعین کر سکیں۔
جبکہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے دیگر عالمی ادارے کسی ملک میں معیار زندگی کو جانچنے کے لیے پیمائش کے مختلف طریقے منتخب کرتے ہیں جن میں فی کس اوسط قومی آمدنی، فی کس مجموعی قومی آمدنی GNI) ، متوقع زندگی، اور تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات جیسے اشاریوں کا استعمال شامل ہے۔
چین کی درجہ بندی کیسے کی جاتی ہے؟
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چین اپنی درجہ بندی ایک ’ترقی پذیر‘ ملک کے طور پر کرتا ہے۔ عالمی بینک اور اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام چین کی ’اپر مڈل انکم‘ ملک کے طور پر درجہ بندی کرتے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) اسے ’ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشت” قرار دیتا ہے۔
ترقی یافتہ معیشت،’ گلوبل انفراسٹرکچر اینالیٹکس اینڈ سسٹین ایبلٹی 2050 ‘ کے ریسرچ ڈائریکٹر فلپ بینوئٹ نے اس دلچسپ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’چین ایک ایسا ملک ہے جس میں ایک ترقی پذیر قوم کی بہت سی خصوصیات ہیں۔ یہ تاریخی و تکنیکی طور پر اور دیگر وجوہات کی بنا، پر اس حیثیت پر پورا اترتا ہے لیکن اس میں امیراورترقی یافتہ معیشت کے علاوہ انتہائی جدید معاشی طاقت کی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔
توانائی کی ضروریات اور کھپت بھی ایک ایسا اشاریہ ہے جس کی بنیاد پر ملکوں کو ترقی پذیر یا ترقی یافتہ قرار دیا جاتا ہے۔ چین کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اسے ترقی پذیر ملکوں میں شمار کئے جانے کی ترغیب دیتی ہیں اور اس کے لیے وہ غریب ترقی پذیر ممالک میں وسائل تلاش کررہا ہے اور جب تک وہ اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے قابل نہ ہو جائے اس وقت تک وہ اپنی فی کس آمدن کو ترقی یافتہ ممالک کے برابر نہیں لا سکتا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین عموماً عالمی سطح پر ایک ترقی یافتہ ملک کی طرح برتاؤ کرتا ہے جبکہ لاطینی امریکہ، افریقہ اور وسطی ایشیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک ترقیاتی امداد اور بنیادی ڈھانچے کی فنڈنگ کے لیے چین پر انحصار کرتے ہیں۔
بینوئٹ چین کو ’ہائبرڈ سپر پاور‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کی عالمی طاقت کا موازنہ ایک روایتی سپر پاور سے کیا جا سکتا ہے جو ترقی یافتہ ملک کی خصوصیات کو ظاہر کرتا ہے جن میں ٹیکنالوجی اور تیز رفتار ریل میں بڑی سرمایہ کاری، بیجنگ اور شنگھائی جیسے انتہائی ترقی یافتہ شہروں کا ہونا شامل ہیں۔
ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ چین میں ترقی پذیر ملک کی خصوصیات بھی ہیں، جیسے کہ ملک کے کئی علاقوں میں غربت کا برقرار رہنا۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (IEA) کے مطابق چین میں 35 فیصد سے زیادہ آبادی آج بھی صاف ستھرا کھانا پکانے والی ٹیکنالوجی سے محروم ہے، وہ کوئلے جیسے انتہائی آلودگی پھیلانے والے ایندھن پر انحصار کرتی ہے۔
بوسٹن کالج میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور ہارورڈ یونیورسٹی کے جان کنگ فیئربینک سینٹر فار چائنیز اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ رابرٹ راس کا کہنا ہے کہ انتہائی غربت میں کمی، دوسری بڑی معیشت اور مینوفیکچرر ہونے کے ناطے چین کی ترقی پذیر قوم کے طور پر درجہ بندی معاشی حقائق کے برخلاف ہے۔