سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، آئین اور عدلیہ پر حملہ ہے: چیف جسٹس عمر عطا بندیال

منگل 29 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ریویو آف ججمنٹ کیس پر حکومت نے خود معاملہ ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی، جس کا مقصد قانون میں ترمیم کرنا تھا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، آئین اور عدلیہ پر حملہ ہے۔ یہ آئین کی بنیادوں کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’گڈ ٹو سی یو‘ مجھے امید ہے ایسا کہنے پر مجھے نشانہ نہیں بنایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ حکومتی وکیل مخدوم علی خان کا مدعا تو ہم نے سمجھ لیا وہ تو اس عدالتی کارروائی پر تنقید کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ قانون میں سقم ہیں اور انہوں نے وقت مانگا تھا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں حکومت نے اپیل کا دائرہ کار بڑھایا تھا، ہم نے درخواست گزار سمیت دیگر وکلا کی تحریری معروضات دیکھی ہیں، اس کیس میں بہت وقت لگ چکا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد مختلف درخواستیں دائر ہوئی ہیں، چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ سے متعلق گزشتہ عدالتی حکمنامے پڑھ کر سنائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ میں خامیاں ہیں، اٹارنی جنرل نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق یکم جون کو مطلع کیا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اسمبلی دیکھے گی لیکن اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا دوبارہ جائزہ نہیں لیا، نہیں معلوم کہ موجودہ حکومت کا اس قانون سے متعلق مؤقف کیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا معطل شدہ قانون کو اتنی اہمیت دی جائے کہ اس کی وجہ سے تمام کیسز التوا کا شکار ہوں؟ اٹارنی جنرل نے ایکٹ پر دوبارہ جائزے کے لیے 2 مرتبہ وقت کیوں مانگا؟

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اپنی پوزیشن کے دفاع کے لیے یہاں موجود نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حکومت کیا چاہتی ہے اس حوالے سے معلوم نہیں، کیا حکومت چاہتی ہے معطل شدہ قانون پر عمل کرکے عدالتی کام روک دیا جائے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ دوسری صورت میں عدالت اپنا کام جاری رکھے اور نئی پارلیمان قانون میں ترمیم کا جائزہ لے۔

وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے مؤقف کا دفاع نہیں کروں گا، اٹارنی جنرل کا مؤقف میرے کیس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیسے اخذ کر لیا کہ قانون عدالت سے درست قرار پائے گا جبکہ حکومت خود کہتی ہے اس میں غلطیاں ہیں؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتیں قوانین کالعدم قرار دینے میں ہمیشہ احتیاط سے کام لیتی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلہ کا نکتہ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹھایا تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی صورت میں پہلی بار ایسا قانون بنایا گیا جو سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات میں مداخلت کر رہا تھا۔ پہلی دفعہ سپریم کورٹ ازخود فیصلوں کے دائرہ کار کو بڑھا دیا گیا ہے، کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کر دے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو احساس ہوا کہ اس قانون میں سقم ہے اس لیے اسے ٹھیک کرنے کے لیے وقت مانگا تھا۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر حکم امتناع کی موجودگی میں کیا اس بنیچ کو یہ مقدمہ سننا چاہیے یا فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میری رائے میں فل کورٹ کو سننا چاہئے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس وقت ان فیلڈ نہیں معطل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو قانونی نکات اُٹھائے گئے ہیں انہیں ہم سمجھ رہے ہیں، موجودہ کیس میں حکومت پاکستان نے خود اس کیس کو التواء میں ڈالنے کی استدعا کی تھی۔ ہم یہاں آئین اور قانون کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس سننے کے لیے ہم میں سے ایک ممبر کو بیرون مُلک سے واپس آنا پڑا، میری ذاتی رائے یہ ہے اس کیس کو چلایا جائے، 2023 والی نیب ترامیم تو مخص ایک ریفائن کرنے کی کوشش تھی، اصل نیب ترامیم تو 2022 میں آئی تھیں۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ 2023 والی ترامیم سے متعلق بھول جائیں، چھٹیان چل رہی ہیں ہم صرف اس کیس کے لیے واپس آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے دلائل کو 2022 والی ترمیم تک محدود رکھیں، لگتا ہے یہ کیس ای او بی آئی بنتا جا رہا ہے جو ختم نہیں ہونا، ای او بی آئی کیس میں 6 چیف جسٹس گزرے تھے۔ جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ یہ نیٹ فلیکس سیزن تھری بن گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس مقدمے کا 2022 کی ترامیم کے حوالے سے فیصلہ کر دیتے ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 2023ء میں مقدمہ منتقلی کے حوالے سے چھوٹی ترامیم ہوئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں صرف بتائیں کہ 2022ء والی ترامیم میں کیا کیا شامل ہوا تاکہ کیس کو ختم کریں،  مخدوم علی خان نے کہا کہ 2023 والی ترامیم سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی ترمیمی درخواست دائر نہیں کی،  خواجہ حارث نے کہا کہ میں ان کی درستگی کروا دوں گا عدالتی حکمنامے میں موجود ہے کہ میں نے 2023 والی ترامیم کا معاملہ اُٹھایا، عدالت نے مجھے متفرق درخواست دائر کرکے اور کاپی مخالف فریق کو دینے کا کہا اور یہ میں کر چُکا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں کہ اس  کیس میں یا تو فل کورٹ بنے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے، چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی درخواست کرتا ہوں۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp